Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 30
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ اِ۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ١ۚ یُضَاهِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١٘ۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَقَالَتِ
: اور کہا
الْيَهُوْدُ
: یہود
عُزَيْرُ
: عزیر
ابْنُ اللّٰهِ
: اللہ کا بیٹا
وَقَالَتِ
: اور کہا
النَّصٰرَى
: نصاری
الْمَسِيْحُ
: مسیح
ابْنُ اللّٰهِ
: اللہ کا بیٹا
ذٰلِكَ
: یہ
قَوْلُهُمْ
: ان کی باتیں
بِاَفْوَاهِهِمْ
: ان کے منہ کی
يُضَاهِئُوْنَ
: وہ ریس کرتے ہیں
قَوْلَ
: بات
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
مِنْ قَبْلُ
: پہلے
قٰتَلَهُمُ
: ہلاک کرے انہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اَنّٰى
: کہاں
يُؤْفَكُوْنَ
: بہکے جاتے ہیں وہ
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں۔ پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے۔ یہ بھی انہیں کی ریس کرنے لگے ہیں۔ خدا انکو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ؟
اہل کتاب کے فضائح اور قبائح کا بیان قال اللہ تعالی۔ وقالت الیھود عزیر ابن اللہ۔۔۔ الی۔۔۔ لو کرہ المشکرون۔ (ربط): گزشتہ آیات میں مشرکین کے قبائح کا بیان ہوا اب اہل کتاب کے قبائح اور فضائح اور ان کے ععقائد باطلہ اور افعال شرکیہ کو بیان کرتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ مشرکین کی طرح اہل کتاب بھی دین حق کے مطیع اور فرمانبردار نہیں اور ان کی طرح یہ مستوجب قتل و قتال ہیں اس لیے اب آئندہ آیات میں اہل کتاب کے عقائد باطلہ اور ان کے کفریات قولیہ و فعلیہ اور جہالت عملیہ کی کسی قدرت فصیل کرتے ہیں تاکہ گزشتہ آیت میں جو اہل کتاب کے متعلق لا یؤمنین باللہ ولا بالیوم الاخر اور ولا یدینون دین الحق فرمایا تھا اس کی کسی قدر تفصیل ہوجائے اور معلوم ہوجائے کہ اہل کتاب کے متعلق جو قتال اور جزیہ کا حکم دیا گیا اس کی وجہ ان کے یہ اعمال کفریہ ہیں۔ اول یہود سے شروع فرمایا کہ وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ یہ عقیدہ یہود کے تمام فرقوں کا نہیں بلکہ ان میں کے ایک خاص فرقہ کا ہے جو بقول بعض علماء مدینہ کے بعض یہود یعنی یہود بنی قریظہ تھے۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ شام کے بعض یہودی بھی ایسیا ہی کہا کرتے تھے اس سرزنش اور توبیخ کا مخاطب یہی فرقہ ہے جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ سلام بن مشکم اور نعمان بن اوفی اور ابو انس اور شاس بن قیس نے آں حضرت ﷺ سے یہ کہا۔ کیف نتبعک وقد ترکت قبلتنا وانت لاتزعم ان عزیرا ابن اللہ۔ رواہ ابن اسحاق وابن جریر (تفسیر در منثور ص 229 ج 3 ور دیکھو تفسیر کبیر ص 620 ج 3) ترجمہ : ہم کیسے آپ کی پیروی کریں در انحالی کہ آپ نے قبلہ (بیت المقدس) چھوڑ دیا اور آپ حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتے (ابن اسحاق وابن جریر نے روایت کیا) اس سے معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺ کے زمانہ میں جو یہود مدینہ رہتے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت زیر خدا کے بیٹے تھے اس آیت کا نزول اس خاص فرقہ کے بارے میں ہوا جن کا یہ عقیدہ تھا۔ ابن جوزی فرماتے ہیں کہ اس عقیدہ کی ایک جماعت نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں موجود تھی (دیکھو زاد المسیر ص 424 ج 3) امام ابوبکر رازی احکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ یہود میں کا ایک خاص فرقہ اس کا قائل تھا کہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں تمام یہودی اس کے قائل نہیں ابن عباس ؓ سے منقوہ ہے کہ یہود کی ایک خاص جماعت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جن میں سلام بن مشکم اور نعمان بن اوفی اور شماس بن قیس اور مالک بن صیف تھے ان لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت عیز کے لتعلق یہ کہا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اب اس فرقہ کا کوئی وجود نہیں اور ہمارے عل میں اب کوئی اس کا قائل نہیں واللہ اعلم دیکھو احکام القرآن للامام الجصاص ص 103 ج 3) (قلہ تعالیٰ وقالت الیہود عزیر ابن قیل اراد بہ فرقۃ من الیھود وقالت ذلک والدلیل علی ذلک ان الیھود قد سمعت ذالک فی عھد النبی ﷺ فلم تنکرہ والمراد فرقۃ منھم لاجمیعھم کقولک جاءنی بنو تمیم ولمراد بعضھم قال ابن عباس قال ذلک جماعۃ من الیھود جاء وا الی النبی ﷺ فقالوں ذلک وھم سلام بن مشکم و نعمان اوفی وشماس بن قیس ومالک بن الصیف فانز اللہ تعالیٰ ھذہ الایۃ ولیس فی الیھود من یقول ذلک الان فیما نعلم ونما کانت فرقۃ منھم قال تذلک فانقرضت (کذا فی احکام القرآن ص 103 ج 3) غرض یہ تھی کہ حق جل شانہ نے اس آیت میں اول یہود کے اس خاص فرقہ کا ذکر کیا جو حضرت عزیر کو خدا تعالیٰ کا فرزند کہتے تھے بعد ازاں نصاری کا حال بیان کیا جو حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیتے تھے یہود اور نصاری اس عقیدہ میں مشرکین کے ہم نوا ہیں جو ملائکۃ اللہ کو خدا کی بیٹیاں بتلاتے تھے۔ پھر یہود نصاری نے فقط حضرت عزیر اور حضرت مسیح کے خدا بنانے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے احبار اور رہبان کو بھی خدا بنالیا بایں صورت کہ ان کے احبار روہبان جو فتوی دیتے وہ اس کو حکم الٰہی کے برابر مانتے اور ان کے احکام کو شریعت الیۃ یہ کے احکام کا بدل سمجھتے احبار ور رہبان کو رب بنانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قول کو اپنا دین اور ایمان سمجھے کہ جو وہ کہیں مان لیں اور جس چیز منع کریں اسے چھوڑ دیں پس اس قسم کے جرائم کی بناء پر حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان لوگوں سے جہاد و قتال کرو یہاں تک کہ یہ لوگ ذلت و خواری کے ساتھ جزیہ دینا قبول کریں (پہلا جرم) ان وگوں کا یہ ہے کہ دین الہی کے مطیع اور فرمانبردار نہیں یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے۔ (دوم) یہ کہ یہود نے حضرت عیزر کو اور نصاری نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا قرار دیا۔ یہود اور نصارا اگرچہ اللہ پر ایمان لانے کے مدعی ہیں مگر فقدان توحید کی وجہ سے وہ ایمان کالعدم قرار دیا گیا۔ (سوم) یہ کہ اپنے احبار روہبان کو حلال اور حرام کا مختار مطلق قرار دیا اور ان کے حکم کو خدا کے حکم کی طرح واجب الاتباع سمجھا بجائے دین حق کے اتباع کے احبارو رہبان کے اتباع کو مدار نجات جانا اور نصاری نے بہت سے محرمات کو محض پولوس کے مبارح کردینے سے حلال مان لیا۔ حالانکہ توریت میں ان چیزوں کی حرمت صراحت موجود ہے اور آج کل کے نصاری کا تو حال ہی نہ پوچھو ان لوگوں تو شراب اور زنا سب کو حلال کرلیا جو تمام شریعتوں میں حرام تھا۔ غرض یہ کہ ان لوگوں نے اپنے احبارو رہبان کو حق تشریع عطا کیا اور ان کے حکم کو خدا کے حکم کی طرح واجب الاطاعت سمجھا اور ظاہر ہے کہ تشرع احکام اور تحلیل وتحریم صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس میں کوئی دسرا شریک نہیں ہوستا اور ائمہ دین جو فوی دیتے ہیں وہ کتاب وسنت سے استنباط کر کے دیتے ہیں ان کا اتباع درحقیقت اور خدا اور رسول کا اتباع ہے ائمہ دین وجعلناھم ائمہ یھدون بامرنا کا مصداق ہیں اس لیے ان کا اتباع کرتے ہیں۔ خلاصۂ کلام : یہ کہ اھل کتاب بھی شرک میں مشرکین کے مشابہ ہیں اگرچہ شرک کا طریقہ مختلف ہے مشرکین بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور یہ لوگ حضرت مسیح کی پستش کرتے ہیں۔ شرک میں دونوں شریک ہیں بلکہ اعتبار سے عابد مسیح عابد صنم سے شرک میں بڑھ کر ہے اس لیے کہ عابد مسیح کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ معاذ اللہ مسیح بن مریم میں حلول کر آیا ہے اور اس کے ساتھ متحد ہوگیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی طرح مسیح بھی خالق عالم اور مدبر عالم ہے۔ اور مشرکین کا بتوں کے متعلق یہ عقیدی نہیں (دیکھو تفسیر کبیر ص 620 ج 4) تفسیر : اور چونکہ اہل کتاب نے دین حق کو قبول نہیں کیا۔ اس لیے یہود نے تو یہ کہا کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے یہ کہا عیسیٰ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ان کی منہ کی باتیں ہیں۔ محض ان کی زبانوں سے نکلی ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت اور اصلیت ہے اور نہ کوئی سند ہے اور نہ کوئی دلیل ہے کما قال تعالیٰ وما جعل ادعائکم ابناء کم ذلکم قولکم بافواھکم۔ اذ تلقونہ بالسنتکم وتقولون بافواھکم مالیس لکم بہ علم وینذر الذین قالوا اتخذ اللہ ولدا مالھم بہ من علم ولا لا ٰ بائھم کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقلون الا کذبا۔ ظہر آیت سے یہ معوم ہوتا ہے کہ تمام یہود اس کے قائل ہیں کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹھے۔ سو جانن چاہئے کہ ظاہری عموم مراد نہیں بلکہ ایک خاص فرقہ مراد ہے جو آں حضرت ﷺ کے زمانے میں موجود تھا اور مدینہ میں رہتا تھا انہوں نے آں حضرت ﷺ کے زمانے میں یہ بات کہی تھی جس پر یہ آیت اتری اور یہود کو پڑھ کر سنائئی گئی مگر کسی نے اس آیت کو سن کر انکار نہیں کیا اور نہ اس کی تکذیب کی حالانکہ وہ آں حضرت ﷺ کی بات بات میں تکذیب کرتے تھے اور آپ کے سخت دشمن تھے۔ اگر عہد نبوی میں یہود کا کوئی فرقہ اس کا قائل نہ ہوتا ضرور تھا کہ یہود اس وقت قرآن کی تکذیب اور تغلیط کرتے یہ کیسے ممکن ہے کہ دشمن طعنہ چین کی طرفا یک غلط عقیدہ منسوب کیا جائے اور وہ سن کر خاموش بیٹھا رہے اور اس پر کوئی اعتراض نہ کرے ہاں یہ ممکن ہے کہ بعد میں یہودیوں نے اس عقیدہ کو غلط سمجھ کر چھوڑدیا ہو مگر قرآن میں اس عقیدہ کا درج ہونا اور ایک عرصہ دراز تک کسی یہودی کا اس پر اعتراض نہ کرنا اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہود متقدمین میں یہ عقیدہ کو غلط سمجھ کر چھوڑ دیا ہو مگر قرآن میں اس عقیدہ کا درج ہونا اور ایک عرصہ دراز تک کسی یہودی کا اس پر اعتراض نہ نہ کرنا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یہود متقدمین میں یہ عقیدہ رائج تھا گو فی الحال کوئی یہودی اس کا قائل نہ رہا ہو لہذا کسی کا قرآن کریم کی اس حکایت پر اعتراض کرنا کہ یہودیوں میں سے کسی کا یہ عقیدہ نہیں یہ اعتراض غلط ہے جس وقت قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں اس وقت عقیدہ کے لوگ مدینہ میں موجود تھے جیسا کہ ابن عباس ؓ کی روایت ہم ذکر کرچکے ہیں۔ اور علی ہذا نصاریٰ کا یہ کہنا کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے یہ بھی نصاریٰ کے ایک گروہ کا قول ہے سب کا نہیں مگر عام طور پر نصاریٰ میں یہ عقیدہ رائج ہے اس لیے اس کے ثبوت کی ضرورت نہیں عقیدۂ ابنیت کا آغاز کیسے ہوا امام رازی (رح) تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے رفع الی السماء کے بعد اکیاسی سال تک عیسائی دین حق پر قائم رہے بعد میں ان میں اور یہود میں لڑائی چھڑ گئی ہو یہودیوں میں ایک شخص جس کا نام بولس (پولوس) تھا بڑا شجاع تھا اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب کی ایک جماعت کو قتل کیا اور چونکہ وہ عسائیوں کا سخت دشمن تھا اس لیے اس نے ان کے گمراہ کرنے کی ایک تدبیر نکالی وہ یہ کہ ایک روز یہودیوں سے یہ کہا کہ اگر بالفرض عیسیٰ (علیہ السلام) حق پر ہوں تو ہمارے کافر اور دوزخی ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے اور اگر عیسائی جنت میں گئے اور ہم دوزخ میں گئے تو ہم بڑے گھاٹے میں رہو اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی حیلہ ان کو گمراہ کروں تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ دوزخ میں جائیں۔ یہود کو یہ سمجھا کر اپنے اس گھوڑے پر سواہوا جس پر سوار ہو کر عیسائیوں سے جنگ کیا کرتا تھا۔ پھر اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے سر پر مٹی ڈالی اور اپنے اس فعل سے ندامت اور توبہ ظاہر کرتا ہوا نصاریٰ کے مجمع میں آیات انہوں نے پوچھا کہ تو کون ہے اس نے کہا میں تمہارا دشمن پولوس ہوں مجھ کو آسمان سے یہ ندا آئی ہے تیری توبہ اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک تو نصرانی نہیں ہوگا اس لیے میں یہودیت سے تائب ہو کر تمہارے پاس آیا ہوں انہوں نے اس کو کلیسا میں داخل کر کے نصرانی بنا لیا اور اس کو ایک حجرے میں جگہ دے دی سال بھر تک وہ وہاں رہا اور اس عرصہ میں اس نے انجیل کی تعلیم حاصل کی ایک سال کے بعد اس نے کہا مجھے آسمان سے یہ ندا دی گئی ہے کہ اللہ نے تیری توبہ قبول کی۔ نصاری نے اس کے اس قول کی تصدیق کی اور اور ان کے دل میں اس کی محبت پیدا ہوگیئ اور ان کی نظروں میں اس کا مرتبہ بہت بلند ہوگیا۔ جب نصاری میں اس کی شان بڑھ گئی تو بیت المقدس چلا گیا اور وہاں جا کر مخفی طور پر اپنی تعلیم کے لیے تین آدمیوں کو منتخب کیا۔ ایک نام نسطور دوسرے کا نام یعقوب اور تیسرے کا نام ملکان تھا ان تینوں کو اپنا ش اگر دبنایا۔ نسطور کو یہ تعلیم دی کہ عیسیٰ اور مریم اور خدا یہ تین خدا ہیں اور یعقوب کو یہ سکھایا کہ عیسیٰ اور مریم اور خدا یہ تین خدا ہیں اور یعقوب کا یہ سکھایا کہ عیسیٰ انسان نہیں تھا بلکہ وہ خدا کا بیٹا تھا اور ملکان کو یہ پڑھایا کہ عیسیٰ بعینہ اللہ ہے وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا جب یہ تعلیم ان کے دلوں میں گھر کرگئی تو اس نے ان میں سے ہر ایک کو خلوت میں بلا یا اور کہا کہ تو میرا خاص اور معتمد رفیق ہے فلاں ملک میں چلا جا اور وہاں جا کر لوگوں کو یہ تعلیم دے اور نجیل کی طرف لوگوں کو بلا۔ پھر اس نے لوگوں کو بلا کر یہ کہا کہ میں نے خواب میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا ہے وہ مجھ سے راضی ہوگئے ہیں اور اب میں عیسیٰ کے نام پر اپنی جان قربان کروں گا پھر وہ مذبح میں گیا اور اپنے آپ کو ذبح کرلیا پھر اس کے تینوں شاگرد ملک میں متفرق ہوگئے ایک روم میں پہنچا دوسرا بیت المقدس اور تیسرا کسی اور ملک میں اور ان میں سے ہر ایک نے لوگوں کو اس عقیدہ کی طرف بلایا اور جو پولوس نے اس کو تعلیم دی تھی اور لوگوں نے ان کا اتباع کی اس طرح عیسائیوں میں تین فرقے ہوگئے (تفسیر کبیر ص 631 ج 4) اہل کتاب اس قول کے ذریعہ سے اگلے کافروں کے قول سے مشابہت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کا عقیدہ ابنیت یا الوہیت پرانے مشرکین کے عقیدہ کے مشابہ ہے جس طرح وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اسی طرح یہ عزیر اور مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں خدا انہیں غارت کرے کہاں بھٹکے جارہے ہیں۔ توحید کی روشنی کو چھوڑ کر شرک کی تاریکی کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ تو ان کے اقوال کفریہ کا بیان تھا اب آگے ان کے افعال کفریہ ذکر کرتے ہیں کہ ان اہل کتاب یعنی یہود اور نصاری نے خدا کو چھوڑ کر انے عالموں اور دریشوں کو رب بنا رکھا ہے کہ جو فتوی دیدیں اس کو حکم خداوندی کی طرح واجب العمل سمجھتے ہیں اور ان کے قول کو اپنا دین و ایمان سمجھتے ہیں اگرچہ وہ توریت اور انجیل کے نصوص کے خالف ہی کیوں نہ ہو تو ایسی بےچون وچرا اطاعت عبارت کے حکم میں ہے جو شرک ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) لکھتے ہیں عالم کا قول عوام کو سند ہے جب کہ وہ شرع سے سمجھ کر کہے جب معلوم ہوا کہ خود اپنی طرف سے کہا یا طمع سے کہا تو پھر سند نہیں، اور ان لوگوں نے مسیح بن ریم کو بھی رب ننایا حالانکہ تمام کتب الٰہیہ اور صحف سماویہ میں یہی حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک معبود کی پستش کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں نہ اس کے سوا کوئی مستحق عبادت ہے اور نہ کسی کی بےچون وچرا اطاعت واجب ہے اور نہ کوئی اس کا بیٹآ ہے اور نہ بیٹی ہے یہ تو بیان تھا اتباع باطل اور دین حق سے انحراف کا اب آگے یہ بتلتے ہیں کہ یہ لوگ دین حق کے ابطال اور اس کی رد میں کس درجہ ساعی اور کوشاں ہیں۔ وہ یہ کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور ہدایت کو یعنی دین اسلام کو اپنے مونہوں سے پھونک مار مار کر بجھا دیں یعنی دین اسلام کا نور اور آفتاب ہدایت چمک اٹھا ہے یہ لوگ اپنے واہی تباہی اعتراضات سے دین اسلام میں طرح طرح کے عیب نکالتے ہیں کہ وہ پھیلنے نہ پائے گویا کہ یہ لوگ پھونکیں مار کر سورج کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کو اس کے سوا کچھ منظور نہیں کہ اپنے نور کو پوری طرفح پھیلادے اگرچہ کافروں کو برا معلوم ہو یعنی یہ کافر دین اسلام کے مٹانے کی لاکھ کوشش کریں بھلا کہیں ان کے مٹانے سے مٹ سکتا ہے اللہ اپنے نور کو تمام جہان میں پھیلا دے گا اور یہ کافر اپنے ارادہ میں کامیاب نہ ہوں گے۔ چراغ ہو تو منہ کی پھونکوں سے بجھ بھی جائے بھلا کہیں آفتاب کا نور بھی پھونکوں سے بجھتا سنا ہے اور نور اسلام تو آفتاب کے نور سے لاکھوں درجہ بڑھ کر ہے وہی اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے۔ اگرچہ مشرکین کو برا معلوم ہو اس آیت میں غلبہ اسلام کی پیش گوئی ہے کہ دین اسلام تمام دینوں پر غالب آجائے گا اور قیامت تک باقی رہے گا لطائف ومعارف اس آیت میں حق جل شانہ نے یہ خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ عطا کیا جائے اور یہ یہی ضمون سورة فتح اور 1 سورة صف میں بھی ذکر کیا گیا ہے الفاظ میں معمولی فرق ہے مضمون تینوں جگہ کا ایک ہی ہے۔ اب تحقیق طلب امر یہ ہے کہ ظہور اور غلبہ سے کیا مراد ہے سو جاننا چاہیے کہ غلبہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک دلیل اور برہان کے اعتبار سے یعنی دین اسلام باعتبار دلیل اور برہان کے تمام دینوں پر غالب ہو مطلب یہ ہے کہ دین اسلام کی حقانیت پر ایسے برا ہیں اور دلائل قائم کیے جائیں جس سے دین اسلام کا حق ہونا اور دوسروں دینوں کا باطل ہونا واضح ہوجائے۔ اور غلبہ کی دوسری قسم یہ ہے کہ وہ باعتبار تیغ وسنان کے ہو یعنی دین حق کی شوکت اور سطوت کے سامنے دوسرے دین سرنگوں ہوجائیں اور اسلام ہی کی حکومت ہو اور اسی کا قانون ہو۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت میں ظہور اور غلبہ سے دونوں قسم کا غلبہ مراد ہے دلیل اور برہان کے اعتبار سے غلبہ تو اسلام کو ابتداء ہی سے حاصل تھا اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا البتہ دوسری قسم کا غلبہ اسلام کو بتدریج حاصل ہوا مکہ مکرمہ میں دین اسلام باعتبار قوت و شوکت کے کمزور رہا۔ ہجرت اور جہاد کے بعد بتدریج رفتہ رفتہ اسلام کی قوت اور شوکت میں ضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ فتح مکہ سے حجاز اور نجد اور یمن کے تمام علاقہ پر اسلام کی حکومت قائم ہوگئی۔ 1 ۔ سورة فتح کے الفاظ یہ ہیں ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا اور سور صف کے الفاظ یہ ہیں یردین لیطفئوا نور اللہ با افواھھم واللہ متم نورہ ولو کفرہ الکافرون ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکین۔ اور آیات کے سیاق وسباق سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود اسی دوسرے غلبہ کو بیان کرنا ہے اس لیے کہ آغاز سورت سے لے کر یہاں تک مشرکین سے براءت اور بیزاری اور ان سے جہاد و قتال کے احکام کا ذکر چلا آرہا ہے اور پھر اسی سلسلہ میں فتح مکہ اور غزوہ حنین کا اور ان سے جہاد و قتال کے احکام ذکر چلا آرہا ہے اور پھر اسی سلسلہ میں فتح مکہ اور غزوہ حنین کا اور اہل کتاب سے جہاد اور جزیہ کا حکم بیان کیا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ آیت میں اس غلبہ کا بیان کرنا مقصود ہے جو جہاد وقاتل اور سیف وسنان سے حاصل ہو اور سورة فتح میں بھی فتح مکہ کا ذکر ہے اور سورة صف میں جہاد وقاتل کا ذکر ہے اور بیشمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ فتوحات اور غنائم کی بشارتوں کے بارے میں وارد ہوئی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت میں اظہار دین سے وہ غلبہ مراد ہے جو سیف وسنان سے حاصل ہو کہ حکم اسلام کا چلے اور کفار مقہور ومغلوب ہوں اور لیظھرہ علی الدین کلہ کو بصیغۂ مضارع لانے میں اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ظہور اور غلبہ بتدریج ہوگا کیونکہ صیغۂ مضارع استمرار تجددی کے لیے آتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور پر نور سے یہ وعدہ فرمایا کہ بتدریج آپ کا دین تمام دینوں پر غالب آئے گا اور یہی آپ کی بعثت کا مقصد عظیم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دین اسلام کو عظیم الشان بادشاہت اور بےمثال قوت و شوکت عطا کرے گا جس کے سامنے اس زمانے کی تمام قوتیں اور طاقتیں سرنگوں ہوجائیں گی۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سعادت میں روئے زمین پر دو سلطنتیں تھیں ایک ایران کی اور دوسری روم کی ان دونوں بادشاہوں کی سطوت وجبروت نے تمام دیا کو گھیر رکھا تاھ اور دوسرے مذاہب ان کی قوت کے سامنے مضمحل ہورہے تھے۔ کسری شاہ ایران مذہبا مجوسی تھا اور قیصر روم مذہبا عیسائی تھا دنیا میں عیسائیت اور مجوسیت یہی دو مذہب سب سے طاقتور تھے جن کو کسری اور قیصر کی سرپرستی حاصل تھی اور انہیں کا دین تمام ادیان پر غالب تھا اور دیگر ادیان بمصداق " الناس علی دین ملوکہم " مغلوب تھے۔ ملک عرب میں بت پرستی کا زور تھا اور کچھ قدر قلیل عیسائی اور یہود بھی تھے ان حالات میں اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی جس میں یہ بشارت دی گئی کہ دین اسلام تمام دینوں پر غالب ہو کر رہے گا اب ظاہر ہے کہ اس غلبہ کی کوئی صورت سوائے اس کے نہیں ہوسکتی کہ روم اور ایران کی سلطنتیں درہم برہم ہوجائیں اور ان کی جہ اسلام کی پرشوکت حکومت قائم ہوجائے کہ حکم اور قانون اسلام کا چلے۔ غلبہ مومن کی اس پیش گوئی کے ظہور کا آغاز آں حضرت ﷺ کے دست مبارک سے ہوا کہ حجاز اور نجد اور یمن میں اسلام کی قوت و شوکت حاص ہوئی اور دین اسلام کو بت پرستی پر غلبہ ہوا کہ حجاز اور نجد اور یمن میں سلام کو قوت و شوکت حاصل ہوئی اور دین اسلام کو بت پرستی پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہ ظہور دین اور غلبہ دین کی ایک منزل طے ہوئی تھی کہ آں حضرت ﷺ اس عالم سے تشریف لے گئے اور وعدہ کی تکمیل ہنواز باقی تھی سو اس وعدہ کی تکیل آپ کے خلفاء کے ہاتھوں پر ہوئی جو آپ کے لیے بمنزلہ اعضاء اور جوارح کے تھے چناچہ حق تعالیٰ کا یہ وعدہ اور پیش گوئی خلفائے ثلاثہ کے ہاتھوں پر پوری ہوئی انہیں کے زمانے میں انہیں کے جہاد و قتال سے سے اور انہیں کی جدوجہد سے دنیا کی سب سے بڑی دو سلطنتیں روم اور ایران زیرو زبر ہوئیں اور ان دونوں سلطنتوں پر اسلام کا فاتحانہ قبضہ ہوا جب یہ دونوں سلطنتیں برباد ہوئیں اس وقت دنیا کے موجودہ اور مشہورترین ادیان مجوسیت اور نصرانیت بھی مغلوب ومقہور ہوئے اس طرح اللہ تعالیٰ کا وعدہ خلفاء ثلاثہ کے ہاتھوں پر پورا اس میں شک نہیں خہ اللہ کا یہ وعدہ رسول اللہ ﷺ سے تھا کہ اپ کا دین تمام دینوں پر غالب آئے گا مگر قرآن کریم میں اس کی مدت متعین نہیں تھی کہ یہ وعدہ کب تک پورا ہوگا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کبھی نبی کے خلفاء کے ہاتھوں پر پورا ہوتا ہے۔ کما قال تعالیٰ اما نرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک۔ یعنی جو وعدے اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کے دین کے متعلق کیے ہیں وہ سب کے سب آپ کے سامنے پورے نہ ہوں گے بعضے وعدے تو آپ کو آپ کی زندگی میں دکھلا دئیے جائیں گے اور بعض وعدے آپ کی وفات کے بعد پورے ہوں گے چناچہ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے جو فتح شام کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ حضرت یوشع بن نون کے زمانے میں پورا ہوا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلیفہ اور جانشین تھے۔ سی طرح سمجھو کہ حق جل شانہ نے جو اپنے نبی سے لیظرہرہ علی الدین کلہ میں ظہور دین اور غلبہ اسلام کا وعدہ فرمای تھا اس کی تکمیل اس پر موقوف تھی کہ قیصر و کسری کی سلطنت کا تختہ الٹا جائے ہنوز یہ وعدہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچا تھا کہ سرور عالم ﷺ رحلت فرما گئے اور انے جانشینوں کو ہدایت فرماگئے کہ ان دو قلعوں کو فتح کرو اور ان پر اسلام کا پرچم لہراؤ آپ اس عالم سے تشریف لے گئے اور آپ کے حسب الارشاد یہ امر مہتم بالشان خلفاء ثلاثہ کے بابرت ہاتھوں سے آپ کے حکم کے مطابق انجام کو پہنچا۔ اس لیے یہ سب کچھ آپ ہی کام کام محسوب ہوگا اور خلفاء نے جو کچھ کیا وہ آپ ہی کے دست وپا ہونے کی حیثیت سے کیا اور آپ ہی حکم سے کیا۔ پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ بعثت نبوی کا ی مقصد اور خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ خلفائے ثلاثہ کے ہاتھوں پر پورا ہوا تو ثابت ہوگیا کہ یہ تینوں حضرات آپ کے نائب وصادق اور خلیفہ برحق تھے جن کے ہاتھوں پر مقصد بعثت کی تکمیل ہوئی اور یہی خلافت خاصہ اور خلافت راشدہ ہے۔ یہ جو کچھ لکھا گیا یہ تمام تر حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ کے کلام کا خلاصہ ہے جو ازالۃ الخفاء میں قلم حقائق رقم سے ظہور میں آیا ہے۔ (رح) علی مر اللیالی والایام تتمۂ کلام : حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جب سلطنت قیصر مغلوب ہوئی تو گویا تمام ولایات فرنگ مغلوب ہوگئیں اس لیے کہ ولایات فرنگستان یعنی ریاستہائے انگلستان سب قیصر روم کے ماتحت تھیں اور حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں سلطنت کسری کا نام ونشان بھی نہ رہا۔ سن 30 ھ میں کسری مارا گیا اور مغرب کی جانب میں اسلامی سلطنت کسری کا نام وشان بھی بحر محیط تک پہنچی اور مشرق میں بلاد چین تک پہنچی اور مشارق اور مغارب سے مدینہ میں خراج آنے لگا اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کیا۔ اور اپنا وعدہ پورا فرمایا۔ شیعوں کی حیرانگی : شیعہ اس آیت کی تفسیر میں بہت حیران اور سرگرداں ہیں کبھی تو کہتے ہیں کہ اظہار دین سے سیف وسنان کا غلبہ مراد نہیں بلکہ حجت اور برہان کا غلبہ مراد ہے اور کبھی یہی کہتے ہیں خہ یہ پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں پوری ہوگئی۔ فتح مکہ سے مشرکین عرب پر غلبہ ہوگیا اور نجران کے عیسائیوں نے جزیہ دینا قبول کیا اس سے نصرانیت پر غلبہ ظاہر ہوا اور خیبر فتح ہونے سیہودیت پر غلبہ ظاہر ہوا غرض یہ کہ تمام دینوں پر غلبہ کا ظہور آپ ہی کی زندگی میں ہوگیا اور کبھی یہ کہتے ہیں کہ پیش گوئی امام مہدی کے وقت میں پوری ہوگی۔ تمام روئے زمین پر اسلام پھیل جائے گا۔ جواب : اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ یہ تینوں باتیں غلط ہیں قول اول کا غلط ہونا تو پہلے ہی بدلائل واضح ہوچکا ہے کہ آیت میں صرف حجت اور برہان کا غلبہ مراد نہیں بلکہ عام معنی مراد ہیں جو ہر قسم کے غلبہ کو شامل ہیں۔ (قول دوم) یعنی یہ کہنا کہ پیشین گوئی رسول اللہ ﷺ ہی کے عہد مبارک میں پوری ہوگئی صحیح نہیں مشرکین پر تو غلبہ بیشک آں حضرت ﷺ کے عہد مبارک میں ہوچکا تھا لیکن مجوسیت اور نصرانیت اور یہودیت پر غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا چند نصرانیوں اور چند یہودیوں کے مغلوب ہوجانے سے مجوسیوں اور نصرانیوں کی سلطنت پر کوئی اثر نہیں پڑا لہذا نجران کے نصاری کی مغلوبیت اس آیت کا مصداق نہیں ہوسکتی اس آیت میں تو یہ ہے کہ دین اسلام تمام دینوں پر غالب آجائے گا اور یہ وعدہ اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا کہ جب تک نصاری اور مجوس کی سلطنتیں مغلوب اور زیر وزبر نہ ہوں۔ (قول سوم): یعنی یہ کہنا کہ یہ پیش گوئی امام مہدی کے زمانے میں پوری ہوگی یہ بھی بچند وجہ مردود ہے اول یہ کہ اس صورت میں یہ لازم آئے گا کہ اللہ کا یہ وعدہ باوجود چودہ صدی گزرجانے کے ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ اور آپ کی بعثت کا مقصد ہنوز پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا جب کسی فعل کا کوئی مقصد بیان کیا جائے تو یقینا وہ مقصد اس فعل کے متصل ہی شروع ہوجانا چاہیے اور اگر کچھ فاصلہ بھی ہو تو قلیل ہو اگر کوئی طبیب یہ کہے کہ میں نے فلاں دوا اس لیے دی ہے کہ اس سے مواد فاسدہ کا تنقیہ ہوجائے تو اس دوا کے پینے کے بعد ہی اسہال شروع ہوجانا چاہیے اگر اس قریبی زمانے میں اسہال نہ ہوا بلکہ دوا پینے کے دس بیس برس بعد ہوا تو کون کہے گا کہ وہ طبیب اپنے قول میں کامیاب رہا۔ اسی طرح یہاں یہ سمجھو کہ ظہور دین اور غلبہ دین کا سلسلہ تو آپ ہی کی زندگی سے شروع ہوگیا تھا۔ اور وہ سلسلہ کھی منقطع نہیں ہوا یہاں تک کہ اس کی تکمیل خلفائے ثلاثہ ہاتھوں پر ہوئی۔ دوسری خرابی اس قول میں یہ ہے کہ آیت سے مقصود مسلمانوں کو خوشخبری اور تسلی دینا ہے کہ تم گھبراؤ نہیں عنقریب تمہارے دشمنوں کا غلبہ ختم ہوجائے گا اور تمہارا خوف دور ہوجائیگا اور تمہارا دین تمام دینوں پر غالب آجائیگا پس اگر یہ پیش گوئی حابطہ کرام کے زمانے میں پوری نہیں ہوئی تو ایسی پیش گوئی سے کیا فائدہ کہ قرن کے قرن اور صدی پر صدی گزرتی چلی اور وعدہ کے پورا ہونے کے کوئی آثار نظر نہ آئیں۔ اہل سنت اور اہل بدعت : حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ازالۃ الخفاء میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت اہل سنت اور اہل بدعت کے درمیان حکم ہے اور قول فیصل ہے وہ یہ کہ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین ہدایت آنحضرت ﷺ پر نازل فرمایا آپ نے وہی دین اور وہی ہدایت بعینہ بلا کم وکاست صحابہ کو پہنچا دی اور صحابہ کرام نے اس سے وہی بات سمجھی جو آں حضرت کی مراد تھی اور پھر صحابہ نے وہی ہدایت تابعین کو پہنچائی اور تابعین نے تبع تابعین کو وعلی ہذا القیاس۔ یہی مذہب اہل سنت کا ہے پس اب جو فرقہ یہ کہ تا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے صحابہ کو دین تو پہنچایا لیکن وہ اس کی مراد کو نہ سمجھے یا جو فرقہ یہ کہتا ہے کہ صحابہ سمجھے تو سہی مگر سمجھنے کے بعد حرص وہا کے اسیر ہوئے اور ہمیشہ حق چھپاتے رہے یہ دونوں فرقے بلاشک بدعتی ہیں اول فرقہ معتزلہ کا ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ حدیث میں جو انکم سترون ربکم آیا ہے اس سے علم یقینی کے معنی مراد ہیں نہ کہ رویت حقیقی صحابہ دقت معنی اور غموض مفہوم کی وجہ سے بات کو نہ سمجھ سکے۔ اور دوسرا فرقہ شیعوں کا ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ آں حضرت ﷺ نے حضرت علی کی خلافت کے متعلق صریح حکم دیا تھا مگر صحابہ نے نفسانی اغراض کی بناء پر اس کا اخفاء کیا اور گنہگار ہوئے سو ازروئے تحقیق یہ دونوں فرقے بلاشبہ بدعتی ہیں کیونکہ آیت مذکورہ سے مراد خداوندی یہ ہے کہ اللہ کا دین ضرور بالضرور ظاہر ہو کر رہے گا یہ ممکن نہیں کہ کوئی اللہ کی مراد کو درہم برہم کرسکے اور جو درہم برہم ہونے کا قائل ہو وہ کاذب اور مفتری ہے۔ سبحنک ھذا بھتان عطیم ابطال تقیہ1 1 ۔ نیز آیت مذکورہ یعنی ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ صاف اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بعثت نبوی سے مقصود خداوندی یہ ہے کہ دین حق کو تمام دینوں پر غالب اور ظاہر کردے اور ظاہر کردے اور ظاہر ہے کہ جب اللہ کا ارادہ اظہار کا ہوگا تو پھر کون چھپا سکے گا تو اس سے تقیہ کی گردن ہی ٹوٹ گئی اس لیے کہ تقیہ دین کے چھپانے کو کہتے ہیں۔ 2 ۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ وہ بےخوف ونڈر ہو کر اللہ کے احکام اور اس کے پیغام بندوں کو پہنچائیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے حق میں فرمایا کہ وہ بےخوف ونڈر ہو کر اللہ کے احکام اور اس کے پیغام بندوں کو پہنچائیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے حق میں فرماتے ہیں الذین یبلغون رسلت اللہ ویخشونہ ولا یخشون احدا الا اللہ۔ یعنی انبیاء کے اوصاف یہ ہیں کہ وہ اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور صرف اللہ ہی سے ڈرتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی سے نہیں ڈرتے۔ 3 ۔ اور نبی کریم کو اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کا حکم دیا اور فرمایا۔ یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک اور چونکہ علی الاعلان اور صاف طور پر حکم خداوندی کے پہنچانے میں دشمنوں کی طرف سے مضرت کا اندیشہ تھا تو فرمایا واللہ عیصمک من الناس یعنی آپ لوگوں سے ڈر کر حق کو نہ چھپائیں ہم آپ کی عصمت اور حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ 1 یہ تمام مضمون ہدیۃ الشیعہ مصنفہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب قدس سرہ سے ماخوذ ہے 4 ۔ چناچہ سورة حجر میں ارشاد فرماتے ہیں فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین۔ یعنی آپ لوگوں کو دین کی بات کھال کر صاف صاف سنا دیں اور مشرکین کی پرواہ نہ کریں معاذ اللہ اگر انبیاء تقیہ کرنے لگتے اور منہ پر مہر سکوت لگا کر بیٹھ جاتے تو حق کیسے ظاہر ہوتا اور تمام قرآن کریم اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) نے دشمنوں کی قوت و شوکت اور اپنی بےکسی اور بےبسی کا لحاظ کر کے کبھی بھی اظہار حق اور اعلان حق میں دریغ نہیں کیا اور کبھی دشمنوں سے ڈر کر تقیہ نہیں کیا۔ 5 ۔ حضرات انبیاء کرام اور ان کے اصحاب ؓ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اظہار کلمۂ حق میں۔ دشمنان دین سے جو ہوشربا مصائب پہنچیں ان پر صبر کیا اور تقیہ نہیں کیا اگر تقیہ کرتے تو ان مصائب سے محفوظ رہتے۔ 6 ۔ حق جل شانہ مومنین کی شان میں فرماتے ہیں یجاھدون فی سبیل اللہ ولا یخافون لومۃ لائم۔ یعنی اللہ کے محب اور محبوب بندے خدا کی راہ میں جہاد و قتال کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں درتے۔ اب اہل تقیہ بتلائیں کہ کیا ان میں یہ وصف موجود ہے ؟ ان میں یہ وصف کہاں سے آیا۔ بزدل ہیں ملامت سے ڈرتے ہیں سوائے خدا کے سب سے ڈرتے ہیں۔ اہل تقیہ کو لوگوں کے درمیان رسوائی خوف ہر وقت دامنگیر رہتا ہے اور تبلیغ احکام میں مداہنت کرتے ہیں معلوم نہیں کہ خدا کو کیا منہ دکھاویں گے، اور کشف الغمہ میں امام رضا (رح) تعالیٰ سے منقول ہے لا ایمان لمن لا تقیۃ لہ فقیل یا ابن رسول اللہ ﷺ الی متی قال الی وقت یوم معلوم وھو خروج قائمنا فمن ترک التقیۃ قبل خروج قائمنا فلیس منا اور جامع الاخبار میں ہے قال النبی صلی اللہ لعیہ وسلم تارک التقیۃ تارک الصلوۃ۔ الغرض شیعوں کے نزدیک بغیر تقیہ کے ایمان ناتمام رہتا ہے اور تارک تقیہ بمنزلہ تارک صلوۃ کے ہے تو حضرات شیعہ بتلائیں کہ پھر دین کا اظہار اور علان اور دعوت اور تبلیغ کی کیا صورت ہے 7 ۔ نیز کافروں سے خوف کی صورت میں جرت واجب ہے آیات قرآنیہ اس بات کے بیان سے بھری پڑی ہیں کہ جہاں اظہار حق اور دین پر عمل ممکن نہ ہو تو وہاں سے ہجرت کر جائیں ان ارضی واسعۃ فایای فاعبدون (یعنی میری زمین وسیع ہے کہیں چلے جاؤ اور جا کر میری عبادت کرو ) ان الذین تو فھم الملئکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا فاولئک ماواھم جھنم وساءت مصیرا شیعوں کے نزدیک حضرت علی ؓ پر ہجرت واجب تھی کہ کافروں اور منافقوں کو چھوڑ کر کہیں چلے جاتے۔ ساری عمر تقیہ ہی میں گزاری اور ہجرت نہ کی۔ 8 ۔ اگر آدمی کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قدرت نہ ہو تو ان سے ترک تعلق واجب ہے اور ان کی مجالس میں شرکت حرام ہے کما قال تعالیٰ ولا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔ 9 ۔ حق جل شانہ کا ارشاد ہے ان الانسان لفی خسر الال الذین امنوا وعملوا الصلحت وتواصو ا بالحق تو اصو بالصبر۔ صبر کی ضرورت حق گوئی اور اعلان حق میں ہوتی ہے تقیہ میں صبر کی ضرورت نہیں خاص کر جس مذہب میں حق دبالینے کی تاکید ہو وہاں حق گوئی پر صبر کی نصیحت بیکار ہے۔ 10 ۔ نیز حضرات شیعہ سورة آل عمران کی اس آیت کو بھی پڑھیں۔ وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ وما ضعفوا وماستکانوا واللہ یحب الصابرین۔ یعنی بہت سے نبی ہوئے جن کے ساتھ ہو کر بہت سے الہ والوں نے دشمنان دین سے جہاد و قتال کیا سو اس راہ میں ان کو جو تکلیفیں پیش آئیں ان کے سبب نہ کچھ ڈھیلے ہوئے اور نہ سست ہوئے اور نہ کفار سے کچھ دبے اور نہ ان کے سامنے کچھ جھکے۔ اور اظہار حق اور اعلاء کلمۃ اللہ پر ڈٹے رہے اور اس راہ میں جو تکلیفیں پیش آئیں ان پر صبر کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ صابرین کو محبوب رکھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اظہار حق کے سبب تکلیفوں پر صبر کرنے سے اللہ کا محبوب بنتا ہے تقیہ کر کے حق کو چھپانے سے اللہ کا محبوب نہیں بنتا۔ ہم خاکپائے غلامان اہل بیت کا عقیدہ یہ ہے کہ معاذ اللہ معاذ اللہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کبھی تقیہ نہیں فرمایا ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا وہ اسد اللہ الغالب تھے کوہ شجاعت ہے صاحب کرامت تھے مرکز کرامات وولایت تھے انہیں تقیہ کی کیا ضرورت تھی تقیہ تو کمزور اور خوف زدہ آدمی کیا کرتا ہے معلوم ہوا کہ حضرت امیر نے تمام زندگی جو خلفائے ثلاثہ کے ساتھ معاملہ رکھا وہ عین حقیقت اور عین مودت تھا معاذ اللہ محض ظاہر داری نہ تھی بفرض محال اگر خلفائے ثلاثہ کا کچھ ڈرٹھا تو وہ ان کی زندگی تک تھا۔ اور جب ابوبکر وعمر ؓ دنیا سے چلے گئے اور ان کا نام ونشان بھی نہ رہا۔ تو پھر کس چیز کا ڈر تھا کہ جو برسر منبر اپنے زمانہ خلافت میں ابوبکر وعمر کی فضیلت اور منقبت کو بیان فرماتے تھے۔ مثل مشہور ہے کہ مرے شیر سے تو گیدڑ بھی نہیں ڈرتے۔ پس اگر شیر خدا مری ہوئی روباہ سے ڈرنے لگیں تو قیامت آگئی۔ نیز اگر حضرت امیر ؓ نے ابوبکر وعمر ؓ کے ساتھ تقیہ کیا تو امیر معاویہ ؓ کے ساتھ تقیہ کیوں نہ کرلیا۔ اگر حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ تقیہ کرلیتے تو بہت سے بہت یہ ہوتا کہ قاتلین عثمان مارے جاتے تو وہ کون سے آپ کے عزیز و اقارب تھے جن کا آپ کو اس قدر پاس ولحاظ تھا۔ حضرت سید الشہداء نے تو اپنے اہل و عیال اور لخت جگر کو اس دین کی بابت قتل کرادیا اور اپنے آپ بھی جاں بحق ہوئے اور زن ورزند اور ننگ وناموس کا کچھ بھی لحاظ نہ فرمایا سید الشہدء نے یہ سب کچھ گوارا کیا مگر یزید کے مقابلہ میں تقی کو گوارا نہیں فرمایا۔ حضرت امیر کو اگر قاتلان عثمان کو امیر معاویہ کے حوالے کردیتے تو خلافت تو بنی رہتی۔ اور باغی اور مفسد لوگ سب ہی آپ کے مطیع اور فرمانبردار ہوجاتے ہیں اور دین کی ترقی ہوتی اور بایں ہمی کچھ ہی سہی آخر قاتلان حضرت عثمان ظالم تھے اور مظلوم نہ تھے اور ہمراہیان امام الشہداء کے برابر بےگناہ بھی نہ تھے۔ اس لیے تمام اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف تقیہ کی نسبت یہ سب شیعوں کی تہمت ہے سبحانک ھذا بھتان عظیم۔ ہم غلامان اہل بیت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی بلاشبہ شیر خدا تھے اور خدا کے محب اور محبوب تھے یہ ناممکن ہے کہ وہ کفار اور منافقین کے سامنے دب کر رہیں۔ اور ان کی خوشامد کرتے رہیں اور خوشامد میں اپنی بیٹی (ام کلثوم) بھی ایک کافر اور منافق (عمر) کو دے دیں یہ سب ناممکن اور محال ہے اند کے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم کہ آزردہ شوہ ورنہ سخن بسیار است ۔۔۔۔۔
Top