Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
مَا لَكُمْ
: تمہیں کیا ہوا
اِذَا
: جب
قِيْلَ
: کہا جاتا ہے
لَكُمُ
: تمہیں
انْفِرُوْا
: کوچ کرو
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
اثَّاقَلْتُمْ
: تم گرے جاتے ہو
اِلَى
: طرف (پر)
الْاَرْضِ
: زمین
اَرَضِيْتُمْ
: کیا تم نے پسند کرلیا
بِالْحَيٰوةِ
: زندگی کو
الدُّنْيَا
: دنیا
مِنَ
: سے (مقابلہ)
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
فَمَا
: سو نہیں
مَتَاعُ
: سامان
الْحَيٰوةِ
: زندگی
الدُّنْيَا
: دنیا
فِي
: میں
الْاٰخِرَةِ
: آخرت
اِلَّا
: مگر
قَلِيْلٌ
: تھوڑا
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
قصہ غزوۂ تبوک اور مسلمانوں کو جہاد و قتال کی تاکید اکید اور منافقوں کو تہدید شدید قال اللہ تعالیٰ ۔ یا ایہا الذین امنوا مالکم۔۔۔ الی۔۔۔ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون۔ (ربط): شروع سورت میں مشرکین عرب سے براءت اور ان سے جہاد و قتال کا ذکر تھا اسی سلسلہ میں فتح مکہ اور غزوہ حنین کا ذکر کیا بعد ازاں آیہ کریمہ قاتلوالذین لا یؤمنون باللہ الایۃ میں اہل کتاب سے جہاد و قتال کا حکم دیا اب ان آیات میں غزوہ تبوک کا بیان ہے جو ایک نصرانی بادشاہ یعنی قیصر روم کے مقابلہ میں پیش آیا۔ قیصر روم کے مقابلہ میں جہاد و قتال کی ترغیب کے لیے ان آیات کا نزول ہوا اور ان لوگوں پر عتاب ہوا جنہوں نے اس غزوہ میں شرکت سے تخلف کیا۔ آں حضرت ﷺ جب فتح مکہ اور غزوۂ حنین سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ پہنچے تو آپ کو یہ خبر ملی کہ روم کا نصرانی بادشاہ مسلمانوں پر حملہ کے غرض سے مقام تبوک میں فوج جمع کر رہا ہے جو اسی کی حدود میں واقع تھا۔ آپ ﷺ نے یہ ارادہ فرمایا کہ قبل اس کے کہ وہ حملہ آور ہو آپ ﷺ خود تبوک پہنچ کر اس کا مقابلہ کریں اس لیے آپ نے ہجرت کے نویں سال مسلمانوں میں اس کا اعلان کردیا تاکہ سب جہاد کے لیے تیار ہوجائیں اس سال مدینہ منورہ کے لوگ خشک سالی کی وجہ سے تنگ حالی میں مبتلا تھے اور سفر لمبا تھا اور سخت گرمی کا زمانہ تھا سامان جہاد کی قلت تھی اور دھر مقابلہ پر قیصر روم کا لشکر جرار تھا جس کی طاقت اور کثرت کی کوئی حد نہ تھی۔ اس حالت کو دیکھ کر بعض مخلصین کی بھی ہمتیں پست ہوئیں اور جانے میں کچھ تامل کرنے لگے اور منافقین تو اس اعلان سے دہل گئے کہ یہ بےسروسامان مسلمان آدھی دنیا کے عطیم فرمانروا کی قوت و طاقت کا کہا مقابلہ کرسکیں گے۔ اس لیے منافقین تو چلنے سے حیلے اور بہانے کرنے لگے اور عذر ومعذرت کر کے آپ سے اجازت چاہنے لگے اور قسمیں کھانے لگے کہ ہمیں یہ عذر ہے اور بعض مسلمانوں کو گرمی کی شدت اور سفر کی درازی اور بےسروسامنی کی وجہ سے طبعی طور پر کچھ تردد ہو۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں اول مسلمانوں کو اس طبع کاہلی اور پست ہمتی پر ملامت اور نتبیہ کی گئی اور غزوہ اور جہاد کی ترغیب دی گئی اور ترک جہاد پر تہیب کی گئی اور کاہلی کرنے والوں پر تہدیدی عتاب اور وعیدی خطفاب نازل ہوا اور ان کو یہ بتلا دیا گیا کہ اگر تم اس وقت رسول خدا کی مدد نہ کرو گے تو اس سے اللہ اور اس کے رسول کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ جس خدا نے اس سے پہلے ایک سخت وقت میں اپنے رسول کی مدد کی ہے جب کہ اس کے ساتھ سوائے ایک فرد واحد یعنی ابوبکر ؓ کے کوئی بھی نہ تھا۔ اسی طرح وہ آئندہ بھی مدد کرے گا۔ اس کی مدد فوج ولشکر پر موقوف نہیں یہ سن کر مسلمان تو دل وجان سے تیار ہوگئے اور منافقین نے نہ جانے کے لیے حیلے بہانے بنانے شروع کیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان رکوعات میں منافقین کے جھوٹے حیلوں اور بہانوں کا پردہ فاش کیا۔ اسی وجہ سے اس کو غزوۂ فاضحہ بھی کہتے ہیں جس میں منافقین کی خوب فضیحت ورسوائی ہوئی اور ان کے نفاق کا پردہ چاک ہوا اور منشاء خداوندی بھی یہی تھا کہ منافقین کا نفاق سب پر ظاہر ہوجائے اب اس سورت میں زیادہ تر روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ صرف اخیر میں بعض مومنین مخلصین کی سستی اور کاہلی کی دو واقعوں کا اور ان کی توبہ کا ذکر ہے جو اخیر سورت میں آئے گا۔ چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو تم کو کیا ہوگیا تمہارا تو ایمان ہے کہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے جہاد و قتال اور وہ بھی نبی کی معیت میں ایسی نعمت عظمی ہے کہ دنیائے دوں کے تمام فوائد اور منافع اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں اور یہ بھی تمہارا ایمان ہے کہ دشمنوں کی کثرت اور تمہاری قلت سے وعدۂ خداوندی پر کچھ اثر نہیں پڑتا تو پھر اس ایمان کے بعد یہ سستی وکاہلی کہاں سے آئی۔ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں میں دین کے دشمنوں سے جہاد و قتال کے لیے نکلو تو تم زمین کی طرف گرے جا رہے ہو یعنی تم کو جہاد میں اپنے گھروں سے نکلنا اور اپنی زمینوں اور باغوں کو چھوڑنا ناگوار ہوا تو گویا کہ تم بوجھل ہو کر زمین یعنی پستی کی طرف گرے جاتے ہو۔ اثقال کا طبعی میلان سفل (پستی) کی طرف ہوتا ہے۔ یہاں سے غزوہ تبوک کا بیان شروع ہے چونکہ غزوۂ تبوک سخت گرمی کے موسم میں تھا اور ادھر باغات کے پھل تورنے کا وقت قریب آگیا تھا اور دور کا سفر تھا اس لیے مسلمانوں کو اس غزوہ میں نکلنا دشوار گزرا اور گراں ہوا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں پر عتاب فرمایا اور یہ تثاقل (گرانی) سب سے واقع نہیں ہوا تھا لیکن بعض کے فعل کو کو کل کی طرف نسبت کردیا گیا کیا تم آخرت کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی چند روزہ زندگی پر راضی ہوگئے سو دنیاوی زندگانی کا نفع آخرت کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں مگر بہت تھوڑا بلکہ ہیچ ہے کیونکہ دنیا کی نعمتیں اور لذتیں فانی اور زائل ہوجانے والی ہیں۔ اور آخرت کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں اور عاقال اور دانان بڑی چیز کو چھوٹی چیز کی خاطر نہیں چھوڑتا اگر تم جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تم کو دردناک عذاب دے گا۔ اور اپنے دین اور رسول کی مدد کے لیے تمہارے بدلے دوسرے لوگ لا موجود کرے گا اور تم خدا کوئی نقصان نہیں ہنچا سکو گے خدا بےنیاز ہے اور اس کا رسول اس کی پناہ میں ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے جس میں یہ تغیر وتبدل بھی داخل ہے اگر تم اس کے سول کی مدد نہ کرو گے تو اس کا کیا نقصان ہے اپنا ہی ثواب کھوؤگے۔ پس تحقیق اللہ اس کیوقت مدد کرچکا ہے جبکہ کافروں نے اس کو مکہ سے نکالا تھا۔ ایسے حال میں کہ وہ رسول ﷺ دو میں کا دوسرا تھا۔ یعنی جبکہ وہ صرف دو میں سے دوسرا شخص تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت غار میں صرف ایک آپ ﷺ تھے اور ایک ابوبکر ؓ تھے اور ان دو کے علاوہ کوئی تیسرا شخص آپ ﷺ کے ساتھ نہ تھا اس وقت اللہ نے آپ ﷺ کی مدد کی جب وہ دونوں غار ثور میں چھپے وئے تھے ہجرت کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر ؓ تھے اور دونوں غار ثور میں جا کر چھپے تو اس وقت رسول اللہ ﷺ دو میں کے دوسرے تھے۔ مقصود اس بیان سے یہ ہے کہ ہمارا پیغمبر تمہاری مدد کا محتاج نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد اس وقت کی جب اس کے ساتھ کل ایک ہی آدمی پس جس خدا نے ایسے وقت میں مدد کی کہ جب سوائے ایک شخص کے کوئی آپ کے ہمراہ نہ تھا وہ اب بھی مدد کرسکتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر غارثور میں جا کر چھپے تو کافر سراغ لگاتے لگاتے عین غار کے منہ پر جا کھڑے ہوئے۔ ابوبکر صدیق یہ ماجرا دیکھ کر گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ اگر کافر اپنے پاؤں کی طرف نظر کریں گے تو ہم کو دیکھ لیں گے تو اس وقت آپ اپنے ساتھی ابوبکر کی تسلی کی لیے یہ کہنے لگے تو غم نہ کر بیشک اللہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ ہے وہ کبھی ہم سے جدا نہ ہوگا اور ظاہر ہے کہ خدائے کریم جس کے ساتھ ہو اسے کیا ضرر پہنچ سکتا ہے بلکہ جس کے ساتھ خداوند کریم اس کے دشمنوں کی خیر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جب ابوبکر صدیق نے غارثور میں آپ سے یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو وہ اپنے قدموں کے نیچے ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا اے ابوبکر تیرا ان دو شخصوں کی نسبت کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے اس آیت سے آں حضرت ﷺ کا کمال تو کل ثابت ہوتا ہے کہ ایسی پریشانی کی حالت میں آپ کو نہ کسی قسم کا اضطراب تھا اور نہ دشمنوں کا کچھ خوف تھا۔ یہ سمجھ رہے تھے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے اور اپنے یار غار کو تسلی دے رہے تھے کہ تو کسی قسم کا اندیشہ نہ کر جب کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے تو کوئی ہمارا کیا کرسکتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر پر اپنی خاص تسکین نازل کی یعنی اللہ تعالیٰ نے آں حضرت ﷺ پر سکون اور اطمینان کی ایک خاص کیفیت نازل کی جس سے ایسا سککون اور اطمینان ہوا کہ دور دور بھی کہیں خوف ہراس اور پریشانی اور اضطراب کا نام ونشان نہ رہا اور ابوبکر تو آپ کے پہلو ہی میں تھے اس سکینت اور طمانینت کے نزول سے ابوبکر کی تمام پریشانی دور ہوگئی سکینت کا نزول گرچہ آں حضرت ﷺ کئے قلب مقدس پر ہوا مگر اس سکینت کے نازل کرنے سے مقصود ابوبکر کی تسلی اور تسکین تھی اس لیے اس سکینت کے انوار وبرکات نے ابوبکر کے رنجم وغم کو دور کردیا اور بعد ازاں خود حضور پرنور نے بھی اپنے یار غار کو تسلی دے دی اور سکینت اور طمانینت کا مژدہ جانفزا سنادیا جس کو سن کر ابوبکر اور بھی مطمئن ہوگئے۔ جمہور علماء تفسیر کا مسلک یہ ہے کہ علیہ کے ضمیر آں حضرت ﷺ کی طرف راجع ہے۔ اور بعض علماء تفسیر یہ کہتے ہیں کہ علیہ کی ضمیر صاھبہ یعنی ابوبکر ؓ کی طرف راجع ہے کیونکہ اس آیت میں صاحبہ کا ذکر سب سے زیادہ قریب میں واقع ہے اور بہتر یہ ہے کہ ضمیر قریب کی طرف راجع ہو نیز سکینت کا نزول خوف اور حزن کے دور کرنے کے لیے تھا اور حزن اور خوف ابوبکر ہی کو تھا نہ کہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم کو۔ آپ تو سکینت کے نزول ہونے سے پہلے ہی ساکن القلب اور مطمئن تھے اور ابوبکر کو تسلی دے رہتے تھے آپ پر سکینت نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی اگر آپ خود خائف ہوتے تو ابوبکر تسلی کیسے دے سکتے تھے ایک خوف والا دوسرے خوف والے کو کیا تسلی دے۔ معلوم ہوا کہ اس سکینت کا نزول ابوبکر کے قلب پر ہوا تھا اور اسی قول کو امام نے تفسیر کبیر میں اختیار فرمایا ہے۔ (دیکھو تفسیر کبیر ص 654 ج 4) بہرحال اگر سکینت کا نزول بلا واسطہ ابوبکر کے قلب پر ہوا تو بات واضح رہے اور اگر سکینت کا نزول بلا واسطہ بنی عجب نہیں کہ اس کا عکس ابوبکر کے قلب پر پڑا اور آپ کی ذات بابرکات کا نزول بلاواسطہ قلب نبوی پر ہوا تو لامحالہ اس کا عکس ابوبکر کے قلب پر پڑا اور آپ کی ذات بابرکات اس انعکاس کا واسطہ بنی عجب نہیں کہ اس سکینت کے انوار و تجلیات اس قدر عظیم ہوں کہ سوائے رسول عظیم کے قلب کے کوئی اور قلب بلاواسطہ ان کا تحمل نہ کرسکے اس لیے سکینت کے انوار وبرکات ابوبکر کے قلب پر آپ کے واسطہ سے پہنچے تاکہ ابوبکر کا قلب ان انوار و تجلیات کا تحمل کرسکے ایسا نہ ہو کہ کوہ طور کی طرح تجلی کداوندی سے ریزہ ریزہ ہوجائے واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔ اور علاوہ سکینت وطمانینت کے اللہ نے اپنے پیغمبر کی بدر اور حنین کی طرح فرشتوں کے ان لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور پھر آپ کی حفاظت کے لیے فرشتوں کی فوج نازل کی اس طرح غیبی اسباب کے ذریعہ آپ ﷺ کی تائید اور تقویت کا سامان کیا جس کا ایک کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ مکڑی کا جالا جسے اوھن البیوت کہا گیا وہی آپ ﷺ کے حفاظت کے لیے مستحکم قلعہ سے بڑھ کر حفاظت کا ذریعہ بن گیا اس طرح حق تعالیٰ نے کافروں کی بات کو نیچا کردیا یعنی وہ اپنے ارادہ میں ناکامیاب رہے اللہ نے ان کی ساری تدبیر کو خاک میں ملا دیا اور آپ کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ پہنچا دیا اور اللہ کی بات وہی اونچی ہے یعنی کلمہ اسلام بلند اور بالا ہے اور قیامت تک بالا ہی رہے گا اور اللہ غالب اور عزت والا ہے جس کو چاہے اور جس طرح چاہے عزت اور غلبہ عطا فرمائے اور حکمت والا ہے کبھی اسباب کے پردہ میں مدد کرتا ہے اور کبھی بلا اسباب کے مدد فرماتا ہے اے مسلمانو ! نکلو جہاد کے لیے ہلکے پھلکے اور بھاری بوجھل یعنی دونوں حالتوں میں جہاد کے لیے نکلو ہلکے ہونے کی حالت میں نشان اور انبساط کا اجر ملے گا اور بوجھل ہونے کی حالت میں مشقت کا اجر ملے گا خفاف اور ثقال کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ خفاف اور ثقال سے سوار اور پیادے یا تندرست اور بیماری یا جوان اور بوڑھے یا محتاج اور مالدار یا نہتے اور ہتھیار والے یا بےعیال اور عیالدار مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ ہر حالت میں جہاد کے لیے نکلو نفیر عام کے وقت کوئی عذرت نہ کرو اگر تم سے اور کچھ نہ ہوسکے گا تو مجاہدین کے مال ومتاع ہی کی حفاظت کرلو گے غرض یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہر خفیف اور ثقیل کو نکلنے کا حکم دیا ہے۔ بےعیال ہلکے پھلکے ہیں اور عیالدار بوجھل، جوان ہلکے پھلکے ہیں اور بوڑھے بوجھل، سوار ہلکے پھلکے ہیں اور پیدل بوجھل وغیرہ وغیرہ، اور اپنے مالوں اور جانوں سے خدا کی راہ میں جہاد کرو جان سے جہاد یہ ہے کہ خود جہاد میں شریک ہو اور مال سے جہاد کرنا یہ ہے کہ دوسرے مجاہدین کی مدد کرے اور اپنے روپیہ سے ان کے لیے سامان حرب مہیا کردے۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانتے ہو کہ جہاد کرنے کا کیا ثواب ہے اور نہ کرنے کا کیا عذاب ہے اس حکم سننے کے بعد جتنے سچے مسلمان تھے سب بےعذر جہاد کے لیے آمادہ ہوگئے اور آں حضرت ﷺ کے پاس تیس ہزار فوج جمع ہوگئی اور آپ نے تبوک کی جانب کوچ فرمایا۔ لطائف ومعارف اس آیت سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی جو فضیلت نکلتی ہے وہ بالکل ظاہر ہے واقعی واقعۂ غار میں ان کی جاں نثار قابل صد آفرین ہے یار غار کی مثل جو دنیا میں مشہور ہے وہ یہیں سے چلی ہے۔ حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ابوبکر مجھے صرف غار کی فضیلت دے دیں اور مجھ سے تمام عمر کی عبادت اور نیکیاں لے لیں تو میں اس پر راضی ہوں۔ امت مرحومہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اس وقت آں حضرت ﷺ کے رفیق غار صرف حضرت صدیق تھے حتی کہ مخالفین بھی اس کے مقر اور معترف ہیں پس یہ ایک ایسی فضیلت ہے جو حضرت صدیق کی شان عظمت کو واضح کر رہی ہے اور اگر عنداللہ آپ کو شرف قبولیت حاصل نہ ہوتا تو آپ کی اس فضیلت کو خصوصیت اور خاص شان کے ساتھ قرآن کریم میں ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں سب کو معلوم ہے کہ جس شب میں آنحضرت ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنی جگہ پر سلایا اور خود ابوبکر کی رفاقت میں غار ثور کی طرف روانہ ہوئے بلاشبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی یہ جاں نثاری قابل تحسین وصد آفرین ہے۔ مگر حق جل شانہ نے اس آیت میں سفر ہجرت اور ابوبکر صدیق کی رفاقت کا بیان کیا ہے اور حضرت علی کے سلانے کا واقعہ ذکر نہیں فرمایا اور قرآن کریم میں جو تشخیص وتعیین کے ساتھ اور صراحت و وضاحت کے ساتھ ابوبکر صدیق کی رفاقت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اس طرح کسی اور کی فضیلت کا بیان نہیں کیا پس جو شخص اس آیت کو پڑھے گا اس کو صدیق اکبر کے سر تاج اہل ایمان اور سالار قافلہ اہل عرفان ہونے میں کوئی شک نہیں رہ سکتا۔ اس آیت سے صدیق اکبر ؓ کے جو فضائل ثابت ہوتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ 1 ۔ جب آنحضرت ﷺ کو کفار کی طرف سے اپنے قتل کا اندیشہ ہوا اور بحکم خداوندی آپ ﷺ نے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو ابوبکر صدیق ؓ کو اپنے ساتھ لیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت ابوبکر کے ایمان واخلاص اور ان کی صدق مودت پر کامل وثوق تھا ورنہ ایسے خطرہ کے وقت میں ہرگز ان کو ساتھ نہ لیتے کیونکہ اس صورت میں آپ کو یہ اندیشہ ہوتا کہ کہیں یہ میرے دشمنوں کو میرے حال پر آگاہ نہ کردے یا کہیں آپ ہی مجھ کو قتل نہ کردے۔ معاذ اللہ۔ معاز اللہ۔ رسول خدا کم عقل تو نہ تھے کہ دوست اور دشمن۔ مخلص اور منافق کو نہ پہچانتے ہوں اور حسب ارشاد باری فلعرفتھم بسیماھم ولتتعرفنھم فی لحن القول آں حضرت ﷺ منافق کو اس کے چہرے اور اس کی بات سے پہچان لیتے تھے کہ یہ شخص منافق ہے پس اگر بفرض محال شیعوں کے زعم کے مطابق ابوبکر منافق تھے تو آں حضرت ﷺ پر باوجود نور نبوت اور کمال فراست کے ان کا نفاق کیسے مخفی رہا اور اگر بفرض محال حضور پر نور پر مخفی رہا تو خداوند علام الغیوب پر کیسے مخفی رہا کہ اس نے اپنے پیغمبر کو سفر ہجرت میں ایک منافق کے ہمراہ لے جانے کا حکم دیا۔ شیعوں کے زعم کے مطابق تو خدا کو چاہئے تھا کہ بذریعہ وحی آپ کو منع کردیتے کہ اس منافق کو ساتھ نہ لے جائیں بجائے ممانعت کے اس کی مدح اور منقبت میں آیتیں نازل ہوئیں۔ 2 ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسن بصری اور سفیان بن عیینہ سے منقول ہے کہ اس آیت میں حق تعالیٰ جل وعلا نے رسول اللہ ﷺ کی مدد نہ کرنے پر تمام عالم کو عتاب فرمایا مگر صرف ابوبکر کو اس عتاب سے مستثنی کیا اور صرف مستثنی ہی نہیں کیا بلکہ ایسے آڑے اور نازک وقت میں رسول خدا کی رفاقت اور مصاحبت اور معیت کو بطور مدح ذکر فرمایا۔ 3 ۔ ثانی اثنین : خدا تعالیٰ نے ابوبکر ؓ کو اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کا ثانی فرمایا اور ظاہر ہے کہ آں حضرت ﷺ کا ثانی وہی شخص ہوسکتا ہے جو حضور پرنور کے بعد سب سے افضل اور برتر ہو چناچہ کمالات علمیہ اور عملیہ میں بلاشبہ ابوبکر ؓ حضور پرنور کے ثانی تھے جس کو حضرت شاہ ولی اللہ نے ازالۃ الخفاء میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور قرآن و حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ صڈیق نبی کا ثانی ہوتا ہے مقام نبوت و رسالت کے بعد مقام صدیقیت ہے۔ خدا تعالیٰ نے جب آں حضرت ﷺ کو مخلوق کی ہدایت کے مبعوچ کیا اور آپ ﷺ نے ابوبکر ؓ پر اسلام پیش کیا تو ابوبکر ؓ نے بلا تردد اسلام کو قبول کیا اور اپنے احباب خاص یعنی طلحہ اور زبیر، اور عثمان بن عفان اور دیگر جلیل القدر صحابہ ؓ پر اسلام پیش کیا یہ سب لوگ ابوبکر کے ہاتھ پر ایمان لائے تو دعوت تبلیغ میں ابوبکر آں حضرت ﷺ کے ثانی ہوئے اور امامت میں بھی آپ کے ثانی ہوئے اور ساری عمر آپ کے وزیر ومشیر رہے اور وفات کے بعد حضور پر نور کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ غرض یہ کہ از اول تا آخر ابوبکر آپ کے ثانی رہے اور آخرت میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے ثانی ہوں گے۔ احادیث صحیحہ میں یہ وارد ہوا ہے کہ جب ابوبکر کو غم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی تسلی کے لیے یہ فرمایا ماظنک باثنین اللہ ثالثھما تیرا ان دو شخصوں کی سنبت کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ ہے۔ اس سے بھی ابوبکر صدیق ؓ کی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے اس پر بعض متعصب یہ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے تیسرے اور چوتھے ہونے سے کوئی فضیلت ثابت نہیں ہوتی جیسا کہ حق تعالیٰ کارشاد ہے مایکون من نجوی ثلاثۃ الا ھو رابعھم ولا خمسۃ الا ھو سادسھم۔ یعنی کوئی تین شخص ایسے نہیں کہ جب وہ سرگوشی کرتے ہوں تو ان کا چوتھا اللہ نہ ہو اور نہ پانچ ایسے ہیں جن کا اللہ چھٹا نہ ہو اور ظاہر ہے کہ یہ حکم ہر مومن اور کافر کے لیے عام ہے پس جب اللہ کا کسی کے لیے چوتھا یا چھٹا ہونا موجب فضیلت نہیں تو نبی کا ثانی اچنین ہونا کیسے موجب فضیلت ہوسکتا ہے جواب یہ ہے کہ اعتراض ناسمجھی پر مبنی ہے کیونکہ آیت مایکون من نجوی میں اللہ کا چوتھا یا چھٹا ہونا بلحاظ علم اور تدبیر اور احاطہۂ قدرت کے ہے کہ وہ عالم الغیب ہے سب کے سرائر اور ضمائر پر مطلع ہے اس کو حق تعالیٰ نے موقع تعطیم میں زکر نہیں کیا بخلاف آیت زیر تفسیر کے کہ اس میں خدا تعالیٰ نے ابوبکر کا ثانی اثنین ہونا معرض تعظیم میں ذکر کیا ہے اور اس صفت کو ابوبکر ؓ کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ خلاصۂ کلام : یہ کہ ایسے نازک موقعہ پر آں حضرت ﷺ کا ابوبکر کو اپنے ساتھ لینا اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آپ کو یہ یقین کامل تھا کہ ابوبکر باطن ان کے ظاہر کے مطابق ہے۔ 4 ۔ اذھما فی الغار : حق جل شانہ نے اذ ھما فی الغار کے لفظ سے ابوبکر صدیق کا یار غار ہونا ظاہر کردیا اور یار غار کی مث یہیں سے چلی ہے جو شخص یار اور غمگساری کا حق ادا کردے اور اس کی محبت اور اخلاص انتہا کو پہنچ جائے تو ایسے محب مخلص کو مھ اورہ میں " یار غار " کہتے ہیں۔ 5 ۔ لصاحبہ : خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ابوبکر ؓ کو نبی اکرم ﷺ کا صاحب (ساتھی) قرار دیا یعنی ابوبکر آں حضرت کے صاحب خاص اور مصاحب اختصاص تھے اور تمام شیعوں اور سنیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں صاحبہ سے ابوبکر ؓ مراد ہیں۔ اور عربی زبان میں صاحب اور صحابی کے ایک ہی معنی ہیں پس یہ آیت ابوبکر کی صحابیت پر نص قاطع ہے یہ رتبہ صرف ابوبکر کو ملا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صحابیت کو قرآن میں بیان کیا اسی وجہ سے علماء نے تصریح کی ہے کہ جو ابوبکر ؓ کی صحابیت کا منکر ہے وہ قرآن کی اس آیت کا منکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے اور علی ہذا جن صحابہ کا صحابی ہونا احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے ان کی صحابیت کا انکار بھی کفر ہے البتہ جن صحابہ کا صحابی ہونا خبر واحد سے ثابت ہے ان کی صحابیت کا منکر کافر نہیں کہلائے گا بلکہ گمراہ اور بدعتی کہلائے گا۔ ابوبکر صدیق ؓ کے زمانہ میں ایک شخص سورة توبہ کی تلاوت کرتا ہو جب اس آیت پر پہنچا یعنی اذیقول لصاحبہ پر پہنچا تو ابوبکر ؓ سن کر رو پڑے اور یہ فرمایا کہ خدا کی قسم یہ صاحب میں ہی ہوں (تفسیر ابن جریر ص 96 ج 10) 6 ۔ لا تحزن : جب مشرکین مکہ آں حضرت ﷺ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار تک پہنچے تو غار کے اندر سے ابوبکر کی نظر ان پر پڑی رونے لگے اور عرض کیا یارسول اللہ اگر میں مارا جاؤں تو فقط ایک شخص ہلاک ہوگا لیکن نصیب دشمناں اگر آپ مارے گئے تو ساری امت ہلاک ہوجائے گی اس وقت آں حضرت ﷺ نے ابوبکر کی تسلی کے لیے یہ ارشاد فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ اے ابوبکر تم غمگین نہ ہوتسلی رکھو اور یقین جانو کہ تحقیق اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ (روض الانف) ص 4 ج 2) خدا تعالیٰ نے نبی کی زبانی ابوبکر کو فرمایا لا تحزن یعنی غم نہ کر یہ نہی کا صیغہ ہے جو دوام اور تکرار پر دلالت کرتا ہے معلوم ہوا کہ اس واقعہ کے بعد ابوبکر پر کسی قسم کا خوف اور غم نہیں نہ موت سے پہلے اور نہ موت کے وقت اور نہ موت کے بعد پس ثابت ہوا کہ ابوبکر ان لوگوں میں سے ہیں جن کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (یعنی قیامت کے دن نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے) معاذاللہ ! معاذ اللہ اگر ابوبکر رسول اللہ ﷺ کے دشمن ہوتے تو جب کافر غار کے منہ پر پہنچے تھے اس وقت ان کو چلانے اور یہ یہ کہنے سے کون روکتا تھا کہ محمد جس کو تم ڈھونڈتے پھرتے ہو یہ اس غار میں میرے پاس بیٹھا ہے اور اور ان کے بیٹے عبدالرحمن اور ان کی بیٹی اسماء کو جو کھانا لے کر غار پر آتے جاتے تھے ان کو اس امر سے کون مانع تھا کہ وہ کفار سے کہہ دیتے کہ محمد کی جگہ ہم کو معلوم ہے آؤ تہم تم کو وہاں لے چلیں۔ خدا ایسے تعصب سے ہر مسلمان کو محفوط رکھے۔ آمین۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دار العلوم دیوبند قدس اللہ سرہ ہدیۃ الشیعہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ لفظ لاتحر جس کے ماطلب یہ ہے کہ تو غمگین نہ ہو یہ لفظ ابوبکر کے عاشق صادق اور مومن مخلص ہونے پر دلالت کرتا ہے ورنہ ان کو غمگین ہونے کی کیا ضرورت تھی بلکہ موافق عقیدہ شیعہ معاذ اللہ اگر ابوبکر دشمن رسول تھے تو یہ نہات خوشی کا محل تھا کہ رسول اللہ خوب قابو میں آئے ہوئے ہیں اسی وقت پکار کر دشمنوں کو بلالینا تھا تاکہ نعوذ باللہ وہ اپنا کام کرلیتے دشمنوں کے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع تھا مگر کہیں انصاف کی آنکھیں اگر مول ملیں تو ہم حضرات شیعہ کے لیے مول لے لیں اور ان کو دے دیں تاکہ وہ کچھ تو پاس رفاقت خلیفۂ اول کریں۔ جو پاس مہر و محبت یہاں کہیں ملتا تو مول لیتے ہم اپنے مہرباں کے لیے غار میں تنہائی تھی ابوبکر کو اس تمہائی میں مار ڈالنے کا بہت اچھا موقع تھا وہاں کون پوچھتا تھا مار کر کہیں چل دیتے اور ابوبکر کے فرزند ارجمند یعنی عبداللہ بن ابی کر غار ثور پر جاسوسی کے لیے مقرر تھے انہیں کے ذریعہ دشمنوں کو اطلاع کرادیتے یا اسماء بنت ابی بکر جو غار پر کھانا لے کر آیا کرتی تھیں ان کے ذریعہ دشمنوں کو اطلاع کرا دیتے اگر خاندان صدیقی کو کچھ بھی عداوت ہوتی تو یہ راز داری اور جاں نثاری کے معاملے نہیں ہوسکتے تھے۔ غرض یہ کہ ابوبکر کا رنجیدہ اور غمیگن ہونا اور دشمنوں کو دیکھ کر رونا یہ سب آں حضرت ﷺ کے عشق اور محبت میں تھ اگر ابوبکر کو اپنی جان کا ڈر ہوتا تو بجائے حزن کے خوف کا لفظ مستعمل ہوتا اس لیے کہ عربی زبان میں حزن کا لفظ رنج وغم کی جگہ یا محبوب کے فراق یا تمنا کے فوت ہوجانے کے ہیں۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) جب کوہ طور پر گئے اور پیغمبری ملی تو خدا تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنے عصا کو زمین پر ڈالو۔ ڈالا تو اژدہا بن گیا موسیٰ علیہ السلا اس سے ڈر کر ایسے بھاگے کہ پیچھے پھر کر بھی نہ دیکھا اس وقت خداوند کریم نے یہ فرمایا یموسی لا تخف انی لایخاف لدی المرسلون اے موسیٰ ! ڈرو مت میرے پاس رسول ڈرا نہیں کرتے اس جگہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی جان کا ڈر ہوا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کے لیے یہ فرمایا لا تخف ڈرو مت اور یوں نہیں فرمایا۔ لاتحزن یعنی رنجیدہ اور غمگین نہ ہو۔ اور اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے جب ایک قبطی کو مار ڈالا اور ان کو ڈر ہوا کہ فرعون کے لوگ مجھ کو مار ڈالیں گے تو موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے ڈر کر بھاگے اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فخرج منھا خائفا یعنی موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے ڈرتے ہوئے نکلے اور بیسیوں جگہ کلام اللہ میں خوف کا لفظ موجود ہے اور یہی معنی ہیں اور جہاں غم کا مقام ہے وہاں حزن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کہا کہ اندیشہ ہے کہ تم یوسف کے غم میں کہیں مر نہ جاؤ تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ۔ یعنی میں اپنی پریشانی اور رنج وغم کا شکوہ اللہ سے کرتا ہوں۔ اس مقام پر حزن کا لفظ استعمال فرمایا خوف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ نیز قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حزن کے اور معنی ہیں اور خوف کے اور معنی ہیں کما قال تعالیٰ تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا۔ یعنی جب پکے مسلمان مرتے ہیں تو رحمت کے فرشتے ان پر اترتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ نہ تم ڈرو اور نہ تم غمگین ہو پس اگر حزن اور خوف کے ایک ہی معنی ہوئے تو مکرر کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ صحیح یہ ہے کہ غم اور چیز ہے اور خوف اور چیز ہے خوف اسے کہتے ہیں کہ کچھ آگے کا اندیشہ ہو اور غم یہ ہے کہ بالفعل دل کی تمنا ہاتھ سے نکل جائے۔ نیز غم خوشی کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور خوف اطمینان کے مقابلہ میں مثلا کسی کا عزیز قریب مرجائے تو اس پر جو حالت پیش آتی ہے اس کو غم کہتے ہیں خوف کوئی نہیں کہتا اور اگر کسی کا لڑکا دیوار پر چڑھ جائے اور وہاں سے اندیشہ گر کر مرجانے کا ہو تو اس اندیشہ کو البتہ خوف کہنے لگے لیکن کوئی نادان بھی اس کو غم نہ کہے گا۔ البتہ غم عین مصیبت کے وقت جو حالت ہوتی ہے اسے کہتے ہیں اور خوف مصیبت کی آمد آمد کی کفیت کا نام نام ہے اور بہ پاس خاطرہ شیعہ لا تحزن کو بھی ہم بمعنی لا تخف ہی سمجھیں تب بھی ہمارا چنداں نقصان نہیں اس لیے کہ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے اے ابوبکر مت ڈر اور ظاہر ہے کہ ابوبکر جو خوفناک ہوں گے اور ان کو جو اپنی جان کا کھٹکا ہوگا تو اسی سبب سے ہوگا کہ کفار کو ان کے ساتھ دشمنی ہوگی اور وہ دشمنی بھی بوجہ اسلام و ایمان ہوگی ورنہ رسول اللہ ﷺ کو تسلی دینے کی کیا ضرورت تھی اور پھر وہ بھی اس قدر کہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ 7 ۔ ان اللہ معنا : رسول اللہ ﷺ نے لا تحزن کے بعد ابوبکر کو یہ تسلی دی کہ ان اللہ معنا تم مایوس اور غمگین نہ ہو تحقیق اللہ تعالیٰ ہمارے دونوں کے ساتھ ہے یعنی خدا تعالیٰ کی عنایات ہمارے ساتھ ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ تو مسلمانوں کی طرف داری اور حمایت کرتا ہے نہ کہ کافروں اور منافقوں کی کما قال تعالیٰ ان اللہ مع ال مومنین ان اللہ مع المتقین ان اللہ مع المحسنین۔ اور اس قسم کے کلمات سے کلام اللہ بھرا پڑا ہے۔ چناچہ خدا تعالیٰ نے اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا کے ضمن میں اس بات پر متنبہ کردیا کہ کفار ابوبکر صدیق سے بھی دشمنی رکھتے تھے ورنہ رسول اللہ ﷺ کیوں ان کی تسلی کرتے اور خدا کیوں ان کے ساتھ ہوتا اور ہمیں تو اتنا بھی بہت ہے کہ خدا ان کے ساتھ اسی طرح سے ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہے اس لیے کہ حق تعالیٰ نے ایک ہی لفظ یعنی معنا بصیغۂ جمع سے دونوں کی مددگاری کو بیان فرمایا ہے اور دو لفظ نہ فرمائے۔ یعنی ان اللہ معنعی ومعک نہ فرمایا جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا میرے ساتھ بھی ہے اتو اس سے اور بھی واضح ہوگیا کہ جس طرح خدا تعالیٰ رسول اللہ کے ساتھ تھا اسی طرح حضرت صدیق اکبر کے ساتھ تھا تھا۔ نیز ان اللہ معنا جملہ اسمیہ ہونے کی وجہ دوام اور استمرار پر دلالت کرتا ہے جس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ کی معیت اور نصرت اور حمایت ہمیشہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گی۔ اور اللہ کبھی ان سے جدا نہ ہوگا اور اگر بالفرض یہ جملہ ہمیشگی پر دلالت نہ بھی کرے تو اتنی بات تو شیعوں کو بھی تسلیم کرنی ہی پڑے گی کہ اس وقت خاص میں تو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیق دونوں خدا کی ہمراہی اور ہمدمی میں شریک تھے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ خداوند ذواللال رسول اللہ ﷺ سے کبھی علیحدہ اور جدا ہو اور ان کی ہمارا ہی اور طرفداری چھوڑ دے سو ان اللہ معنا میں رسول اللہ ﷺ کا حصہ تو دائمی ہے لہذا اس صورت میں ابوبکر حصہ بھی دائمی ہوگا کیونکہ دونوں حصے رلے ملے ہیں بٹے ہوئے نہیں ایک مع کا لفظ دونوں کو لیے معاً استعمال فرمایا ہے ہر ایک کے لیے جدا جدا مع کا لفظ استعمال نہیں فرمایا یعنی معی ومعک نہیں فرمایا نیز ان اللہ معنا فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی معیت رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیق کی نفس ذات کے ساتھ ہے کسی شرط پر موقوف نہیں اس لیے کہ اگر لاتحزن کے بعد ان اللہ مع ال مومنین فرماتے تو یہ گمان ہوتا کہ اللہ کی معیت اور ہمراہی ایمان کے ساتھ مشروط ہے جب ایمان گیا تو ہمراہی بھی ساتھ گئی اور در صورتی کہ ہمراہی بلا کسی شرط کے ہو تو وہ دائمی ہوگی اور اس میں زوال کا احتمال نہ ہوگا الحاصل چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان اللہ معنا فرمایا ہے اور ان اللہ مع ال مومنین وغیرہ جو کسی وصف پر دلالت کرے نہیں فرمایا تو معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی معیت اور ہمراہی ابوبکر کی ذات جان کے ساتھ ہے کسی وصف کے ساتھ نہیں (کیونکہ ضمائر باجماع ائمہ نحو نفس ذات پر دلالت کرتی ہیں کسی وصف پر دلالت نہیں کرتیں) حضرت مولانا محمد قاسم کے کلام معرفت التیام کا خلاصہ ختم ہوا تفصیل اگر درکار ہے تو اصل ہدیۃ الشیعہ کی مراجعت کریں۔ نکتہ : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ اپنے ایک وعظ میں فرماتے ہیں۔ صدیق اکبر ؓ کو جب غار ثور میں کفار کے آنے سے پریشانی ہوئی تو آنحضرت نے ان کو تسلی کے لیے یہ فرمایا لا تحزن ان اللہ معنا۔ معنا میں ضمیر جمع لائے اور صدیق اکبر کو بھی اس معیت میں شریک فرمایا اور موسیٰ کے اصحاب کو جب فرعون اور اس کے شلکر کے آجانے سے پریشانی ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کلا ان معی ربی سیھدین۔ لفظ معی کو بصیغۂ مفرد فرمایا یعنی اللہ میرے ساتھ ہے اور معنا صیغہ جمع کا نہ فرمایا جس کے معنی یہ ہوتے کہ وہ ہم سب کے ساتھ ہے غرض یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے معیت خداوندی کو اپنے ساتھ مخصوص فرمایا اور قوم کو اس دولت میں شریک نہ کیا وجہ فرق کی یہ ہے کہ صدیق اکبر کو اپنی کوئی پریشانی نہ تھی۔ پریشانی فقط حضور کی تھی کہ مبادا کوئی دشمن آپ کو دیکھ لے اور حضرت صدیق دولت وکل سے مالا مال تھے ان کی تسلی کے لیے یہی کلام مناسب تھا جو حضور پر نور نے استعمال فرمای اور معیت الٰہیہ میں ان کو شریک کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جو لوگ تھے وہ نہ تو حضرت صدیق کے برابر متوکل تھے اور نہ یار غار کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عاشق زار اور جاں نثار تھے ان کو تو اپنی جان کا خطرہ تھا پھر خطرہ ہی نہیں بلکہ اس کا جز م اور یقین تھا کما قال تعالیٰ قال اصحاب موسیٰ انا لمدرکون۔ جس میں ان اور لام تاکید اور جملہ اسمیہ تین موکدات موجود ہیں یعنی بس ہم تو یقینا پکڑے گئے حالانکہ بارہا اس کا مشاہدہ کرچکے تھے کہ فرعون کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی کسی طرح مدد فرمائی اور اس وقت بھی خدا کے حکم سے اور اس کے وعدہ نصرت سن کر چلے تھے ان تمام امور کے ہوتے اتنی پریشانی کہ اپنے پکڑے جانے کا یقین اور جزم کر بیٹھے جو ان کے غیر متوکل اور غیر کامل الیقین ہونے کی دلیل ہے اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو دھمکا کر فرمایا۔ کلا ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا جس تاکید سے انہوں نے اپنے پکڑے جانے کو ظاہر کیا تھا اس کا جواب بھی تاکید کے ساتھ دیا گیا اور لفظ معی کو مفرد لائے اور باوجود خبر ہنے کے اس کو مقدم کیا تاکہ فائدہ حصر کا حاصل ہو اس لیے کہ تقدیم ماحقہ التاخیر مفید حصر ہوتی ہے مطلب یہ تھا کہ میرے ساتھ میرا پروردگار ہے اور تم لوگ بوجہ ضعیف الیقین ہونے کے معیت حق سے محروم ہو ہر ایک کا کلام اپنے اپنے موقعہ پر نہایت بلیغ ہے اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مخاطب صدیق اکبر جیسے ہوتے تو وہ بھی وہی فرماتے جو حضور پر نور نے فرمایا اور اگر حضور کے مخاطب وہ لوگ ہوتے جو حضرت موسیٰ کے تھے تو حضور بھی وہی فرماتے جو حضرت موسیٰ نے فرمایا بلاغت کے معنی مقتضائے حال کی رعایت کے ہیں۔ حکیم الامت تھانوی َ کے کلام کا خلاصہ ختم ہوا دیکھو وعظ الرفع والضع ص 45 نمبر 32 از سلسلہ تبلیغ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کی معیت۔ معیت ربانیہ تھی جس کو موسیٰ (علیہ السلام) نے اسم رب کے ساتھ ذکر فرمایا۔ ان معی ربی میرے ساتھ میرا پروردگار ہے اور نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر صدیق کی معیت معیت الٰہیہ تھی۔ جس کو نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے اسم اللہ کے ساتھ ذکر فرمایا ان اللہ معنا تحقیق اللہ ہمارے ساتھ ہے اسی آیت میں حق جل شانہ کی معیت کو اسم اعظم (یعنی لفظ اللہ) کے ساتھ ذکر فرمایا جو تمام صفات کمال کو جامع ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے خدا تعالیٰ کی معیت کو اسم رب کے ساتھ ذکر فرمایا یہ نکتہ عارف کامل شیخ ابن لبان کی کلام کی تشریح ہے جس کو علامہ قسطلانی نے مواہب لدنیہ میں ذکر کیا ہے۔ 8 ۔ فانزل اللہ سکینتہ علیہ : ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سکینت سے طمانینت مراد ہے اور شیخ الاسلام ہر وی فرماتے ہیں کہ سکینت ایک خاص کیفیت اور حالت کا نام ہے جو تین چیزوں کی جامع ہوتی ہے۔ (1) نور۔ اور (2) قوت اور (3) ۔ نور سے قلب روشن اور منور ہوجاتا ہے دلائل ایمان اور حقائق ایقان اس پر منکشف ہوجاتے ہیں حق اور باطل۔ ہدایت اور ضلالت، شک اور یقین کا فرق اس پر واضح ہوجاتا ہے۔ قوت سے قلب میں عزم اور استقلال پیدا ہوتا ہے حق جل وعلا کی اطاعت و بندگی کے وقت اس کو خاص نشان حاصل ہونے لگتا ہے اور اسی قوت کی وجہ سے قلب مومن نفس کے تمام دواعی اور مقتضیات کے مقابلہ میں غالب اور کامیاب رہتا ہے۔ اور روح سے قلب میں حیات اور زندگی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے قلب خواب غفلت سے بیدار ہو کر خدا کی راہ میں چست اور چالا ہوجاتا ہے۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ غزوہ خندق میں عبداللہ بن رواحہ کا یہ رجز آں حضرت ﷺ کی زبان مبارک پر تھا اللہم لو لا انت مااھتدینا ولا تصدقنا ولا صلینا اے اللہ اگر تیری توفیق نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے فانزلن سکینۃ علینا پس تو اپنی خاص تسکین اور طمانینت ہم پر نازل فرما اجس سے ہماری پریشانی اور اضطراب دور ہو۔ تفصیل کے لیے مدارج السالکین ص 278 ج 2 کی مراجعت کریں۔ مشہور قول یہ ہے کہ فانزل اللہ سکینتہ علیہ میں علیہ کی ضمیر مجرور آں حضرت ﷺ کی طرف راجع ہے اور ابن عباس ؓ سے یہ مروی ہے کہ علیہ کی ضمیر مجرورآں حضرت ﷺ کی طرف راجع ہے اور ابن عباس سے یہ مروی ہے کہ علیہ کی ضمیر صاحب کی طرف یعنی ابوبکر کی طرف راجع ہے اس لیے کہ لفظ صاحبہ قریب میں واقع ہے اور ضمیر کا قریب کی طرف راجع کرنا زیادہ بہتر ہے نیز فانزل کی فا بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ لاتحزن پر تفریع ہے اور اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ کہ جب ابوبکر صدیق حزیں وغمگین ہوئے تو اللہ نے ان کے حزن وغم کو دور کرنے کے لیے ان پر سکینت وطمانینت نازل کی۔ (دیکھو روح المعانی ص 87 ج۔ 1 اور زرقانی شرح مواہب ص 336 ج 1) مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اپنی سکینت ابوبکر صدیق پر نازل کی کیونکہ آں حضرت ﷺ کے ساتھ سکینت الٰہی ہمیشہ رہتی تھی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی منقول ہے کہ علیہ کی ضمیر صاحبہ یعنی ابوبکر صدیق کی طرف راجع ہے (دیکھو زاد المسیر ص 440 ج 30 لابن الجوزی) اور اما رازی نے بھی تفسیر کبیر 451 ج میں اسی کو اختیار کیا ہے کہ علیہ کی ضمیر ابوبکر صدیق کی طرف راجع ہو۔ علامہ سہیلی فرماتے ہیں کہ اکثر اہل تفسیر کے نزدیک علیہ کی ضمیر مجرور ابوبکر کی طرف راجع ہے اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کو تو پہلے ہی سے سکون اور اطمینان حاصل تھا۔ اور بعض علماء کے نزدیک علیہ کی ضمیر نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی طرف راجع ہے اور ابوبکر صدیق یہ تبعیت اس میں داخل ہیں اور مصحف حفصہ ؓ میں فانزل اللہ سکینتہ علیھما۔ بصیغہ تثنیہ آیا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سکینت وطمانینت دونوں پر نازل کی اب بحمدہ تعالیٰ کوئی اشکال ہی نہیں رہا۔ (دیکھو۔ روض الانف ص 5 ج 2) اور امام ابن انباری یہ فرماتے ہیں کہ علیہ کی ضمیر اگرچہ مفرد ہے مگر قائم مقام تثنیہ کے ہے بیک وقت دونوں کی طرف راجع ہے جیسا کہ واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ میں یرضوہ کی ضمیر منصوب اگرچہ لفظا مفرد ہے مگر معنی تثنیہ ہے اللہ اور رسول دونوں کی طرف راجع ہے اسی فانزل اللہ سکنتہ علیہ کی تقدیر کلام یہ ہے۔ فانزل اللہ سکینتہ علیھما (دیکھو زاد المسیر لابن الجوزی ص 441 ج 3) 9 ۔ وایدہ بجنودلم تروھا : اور قوت وہی اللہ نے آپ کو ایسے لشکروں سے جن کو تم نہیں دیکھتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ نے غار ثور پر فرشتوں کا پہرہ لگادیا جس کی وجہ سے مشرکین کے دلوں پر ایسا رعب چھایا کہ غار کے اندر جھانکنے کی ہمت نہ ہوئی جیسے اصحاب کہف کے غار پر من جانب اللہ ایک رعب ہے جس کی وجہ سے کوئی شخص اس غار کے اندر جھانک کر نہیں دیکھ سکتا۔ کما قال تعالیٰ لو اطلعت علیھم تولیت منھم فرار ولمئت منھم رعبا۔ چناچہ معجم طبرانی میں اسماء بنت ابی بکر سے مروی ہے کہ جب قریش آپ کو تلاش کرتے کرتے غار تک پہنچ گئے پہنچے تو ابوبکر نے عرض کیا یارسول اللہ یہ شخص جو بالکل غار کے سامنے کھڑا ہے ہم کو ضرور دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں فرشتے ہم کو اپنے پروں سے چھپائے ہوئے ہیں۔ اتنے ہی میں وہ شخص غار کے سامنے بیٹھ کر پیشاب کرنے لگا رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر سے فرمایا اگر یہ شخص ہم کو دیکھتا ہوتا تو ہمارے سامنے بیٹھ کر پیشاب نہ کرتا (فتح الباری ص 187 ج 7 اور روح المعانی ص 88 ج 10) ور بعض علماء تفسیر اس طرف گئے ہیں کہ وایدہ کی ضمیر بھی ابوبکر ہی کی طرف راجع ہے جس کی تائید انس بن مالک ؓ کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس وقت یہ کہا۔ یا ابا بکر ان اللہ انزل سکینتہ علیک وایدک الخ (روح المعانی ص 78 ج 10) اے ابوبکر اللہ نے تجھ پر سکینت وطمانینت نازل کی اور تجھ کو قوت اور مدد پہنچائی۔ 10 ۔ وجعل کلمۃ الذین کفرو السفلیٰ وکلمۃ اللہھی العلیا واللہ عزیز حکیم۔ اور اللہ نے کافروں کی بات کو نیچا کیا اور ان کی تدبیر اور منصوبہ کو ناکام کیا اور آپ کی حفاظت کے لیے غار پر فرشتوں کا پہرہ لگادیا اور غار کے کنارہ سے دشمنوں کو بےنیل مرام واپس کردیا۔ اور خیر و عافیت سے مدینہ منورہ پہنچاید اور تمام راستے قدم قدم پر تائید غیبی کے کرشمے ظاہر ہوتے رہے جیسا کہ احادیث میں ان کا ذکر ہے یہاں تک کہ سید الابرار اور آپ کے یار غار اور محب جاں نثار اللہ کی حفاظت میں مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ تتمۂ کلام : بعض شیعہ لاچار ہو کر یہ کہتے ہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس واقعہ سے ابوبکر ؓ کی فی الجملہ فضیلت ثابت ہوتی ہے مگر ان کی یہ فضیلت علی کی فضیلت سے بڑھی ہوئی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے شب ہجرت علی ؓ کو یہ حکم دیا کہ تم میری جگہ میرے بستر پر سو رہو اور ظاہر ہے کہ ایسے کطرہ کے وقت رسول اللہ ﷺ کے بسترے پر لیٹنا اور اپنی جان کو رسول خدا کے فدیہ کے لیے حاضر کردینا مشکل کام ہے کیونکہ علی کو یہ یقینا معلوم تھا کہ کفار سول خدا کے قتل کی فکر میں لگے ہوئے ہیں پس علی ؓ کا یہ عمل ابوبکر ؓ کے عمل سے بدرجہا بڑھ چڑھ کر ہے۔ جواب : حضرت علی ؓ کا ایسے خطرناک وقت میں آپ کے بستر پر سوجانا بیشک موجب فضیلت ہے لیکن ایسے خطرناک وقت میں ابوبکر کی رفاقت اس سے کہیں بڑھ کر فضیلت ہے اس لیے کہ کفار بہ نسبت علی کے ابوبکر ؓ پر زیادہ دانت پیستے تھے کفار کو معلوم تھا کہ اور دعوت وتبلیغ میں آپ کے ساتھ پیش پیش ہے۔ ابوبکر ؓ ہی کی تبلیغ سے طلحہ اور عثمان اور زبیر ؓ جیسے اکابر اسلام میں داخل ہوئے بخلاف علی کے وہ اس وقت نوعمر تھے اور ابھی تک ان سے نہ کوئی دعوت وتبلیغ ظاہر ہوئی اور نہ کوئی جانی اور مالی جہاد، اس وجہ سے کفار حضرت علی کے زیادہ دشمن نہ تھے یہی وجہ تھی کہ جب کفار نے صبح کو رسول اللہ ﷺ کے بستر پر علی کو دیکھا تو فوراً واپس ہوگئے اور علی سے کچھ تعرض نہ کیا وجہ جس کی یہ ہے کہ حضرت علی کم عمر تھے کم عمری کی وجہ سے کفار کی مزاحمت نہیں کرسکتے تھے۔ اس لیے کفار کو ان سے زیادہ دشمنی نہ تھی کفار کو اصل پرخاش ابوبکر سے تھی پس حضرت علی کو جو کچھ پریشانی رہی وہ صرف ایک رات رہی صبح کو اٹھتے ہی وہ پریشانی ختم ہوئی اور حضرت علی کو اپنی جان کی طرف سے پورا اطمینان ہوگیا بخلاف ابوبکر کے وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تین روز تک غار ثور میں بھی اور اس کے بعد بھی جب تک مدینہ نہیں پہنچے برابر خطرہ میں رہے اور بایں ہمہ انہوں نے رسول خدا کا ساتھ نہ چھوڑا جس سے ابوبکر ؓ کی علی ؓ پر فضیلت ثابت ہوئی۔ شیخ فرید الدین عطار (رح) منطق الطیر میں فرماتے ہیں خواجہ اول کہ اول یار اوست ثانی اثنین اذہما فی الغار اوست صدر دیں صدیق اکبر قطب حق در ہمہ چیز از ہمہ بردہ سبق ہر چہ حق از بارگاہ کبریا ریخت در صدر شریف مصطفیٰ او ہمہ در سینہ صدیق ریخت لاجرم تا بود ازد تحقیق ریخت چوں تو کردی ثانی اثنینش قبول ثانی اثنین او بود بعد از رسول خاتمۂ کلام بر نصیحت معرفت التیام یہ رکوع غزوۂ تبوک کے بارے میں نازل ہوا جس کا آغاز اس عنوان سے ہوا۔ یا ایہا الذین امنوا مالکم اذا قیل لکم النفروا فی سبیل اللہ اثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیوۃ الدنیا من الخرۃ فما متاع الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ الا قلیل۔ اس کے بعد قصہ کی تفصیل فرمائی۔ قصہ کا آغاذ جہاد میں سستی کرنے والوں پر ملامت سے ہوا جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر ملامت کی، جنہوں نے دنیا پر قناعت کی اور آخرت کے کام میں سستی کی اور کطاب سراپا عتاب کا آغاز۔ یا ایہا الذین امنوا کے عنوان سے ہوا کہ ایمان کا مقتضی یہ نہیں کہ بمقابلہ آخرت دنیاوی زندگی پر راضی ہوجائے پوری دنیا کا سازوسامان آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ اور دنیاوی زندگی پر راضی ہوجائے پوری دنیا کا سازوسامان آخرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ اور دنیاوی زندگی کی رغبت کو اثاقلتم الی الرض سے تعبیر فرمایا اشارہ اس طرف ہے کہ دنیا کی رغبت پستی ہے اور آخرت کی رغبت بلندی ہے شروع کلام سے اس بات پر متنبہ کردیا کہ تمام خرابیوں کی جڑ دنیا پر قناعت کرلینا اور آخرت کو بھول جانا ہے۔ اللہم احفظنا من ذلک۔ آمین
Top