Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا
: صرف
الصَّدَقٰتُ
: زکوۃ
لِلْفُقَرَآءِ
: مفلس (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنِ
: مسکین (جمع) محتاج
وَالْعٰمِلِيْنَ
: اور کام کرنے والے
عَلَيْهَا
: اس پر
وَالْمُؤَلَّفَةِ
: اور الفت دی جائے
قُلُوْبُهُمْ
: ان کے دل
وَفِي
: اور میں
الرِّقَابِ
: گردنوں (کے چھڑانے)
وَالْغٰرِمِيْنَ
: اور تاوان بھرنے والے، قرضدار
وَفِيْ
: اور میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
وَابْنِ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
فَرِيْضَةً
: فریضہ (ٹھہرایا ہوا)
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَلِيْمٌ
: علم والا
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
بیان مصارف صدقات قال اللہ تعالیٰ ٰ ۔ انما الصدقات للفقراء۔۔۔ الی۔۔۔ واللہ علیم حکیم۔ (ربط) منافقین حرص اور طمع کی بناء پر یہ چاہتے تھے کہ ہم جس وقت آپ سے جتنا مانگیں اتنا ہی مال آپ ہم کو دے دیا کریں۔ اسی لیے وہ آپ کی عادلانہ تقسیم پر طعن کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی جس میں صدقات کے مصارف بیان فرمائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ لوگ صدقہ دینے کے قابل نہیں اور یہ بتلا دیا کہ اللہ کے نبی کی تقسیم حکم خداوندی کے مطابق ہے جس میں ذرہ برابر خیانت کا احتمال نہیں کیونکہ زکوٰۃ اور صدقات نبی پر اور اس کے اہل و عیال پر اور اس کے خاندان پر بکہ اس کے آزاد کردہ غلاموں پر بھی حرام ہے۔ ایسی حالت میں خود غرضی کا تو کوئی امکان ہی۔ حضور پرنور ﷺ کے پاس جو زکوٰۃ اور صدقات کا مال آتا ہے وہ حسب حکم خداوندی فقراء و مساکین پر خرچ کردیتے ہیں تم جیسے حرص مالدار اس کے مستحق نہیں۔ منافقین کے قبائح اور فضائح کے درمیان مصارف صدقات کا بیان اس لیے فرمایا تاکہ منافقین کی طمع منقطع ہوجائے۔ چناچہ فرماتے ہیں صڈقات و خیرات یعنی زکوٰۃ صرف فقیروں اور مسکینوں کا حق ہے اور ان لوگوں کا حق ہے جو اس کے وصول کرنے پر تعینات ہیں یعنی جو صدقات کی تحصیل کا کام کرتے ہیں ان کو اس مال سے بطریق عمالہ یعن بطریقہ صلہ کار گزاری کچھ دیا جائے اگرچہ وہ غنی ہوں لیکن نہ بطریق زکوٰۃ و صدقہ اور بطریقہ عمالہ میں یہ شرط ہے کہ بقدر کفافا اور بقدر ضرورت دیا جائے گویا کہ شریعت نے عاملین کو جو دینے کا حکم دیا ہے وہ درحقیقت ان کا سفر خرچ ہے نہ کہ زکوٰۃ اور صدقہ۔ جیسا کہ عنقریب اس کی تفصیل آئے گی اور یہ صدقات ان لوگوں کے لیے ہیں جن کی تالیف قلب کی جائے اس سے وہ ضعیف الایمان مسلمان مراد ہیں جو ابھی اسلام پر پختہ نہیں اور افلاس اور تنگدستی کی وجہ سے ان کے اسلام سے پھرجانے کا اندیشہ ہے تو ایسے لوگوں کی تالیف قلب اور دلجوئی کے لیے اس مال میں سے ان کی مدد کی جائے اس حصہ کے متعلق جمہور ائمہ دین کا مذہب یہ ہے کہ یہ پہلے تھا اور اب ساقط ہوگیا کیونہ اللہ نے اسلام کو غنی کردیا۔ لہذا اب مؤلفۃ القلوب کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ صدیق اکبر ؓ کے عہد خلافت میں اس پر تمام صحابہ کا اجماع اور اتفاق ہوگیا۔ (دیکھو روح المعانی ص 109 ج 10) مطلب یہ ہے کہ اب تالیف قلب کی بناء پر زکوٰۃ دینا جازئ نہیں یہ حکم پہلے تھا اور اب منسوخ ہوگیا۔ اب زکوٰۃ صرف حاجت اور ضرورت کی بناء پر جائز ہے۔ اور نیز ان صدقات کو غلاموں کی گردن چھڑانے میں صرف کیا جائے یعنی وہ لونڈی اور غلام جنہوں نے اپنے آقاؤں سے یہ معاملہ کرلیا ہے کہ کما کر اتنی رقفم ادا کریں تو ہم کو آزاد کردیا جائے۔ اصطلاح شریعت میں ایسے غلاموں کو مکاتب کہتے ہیں۔ جس مال زکوٰۃ سے ان مکاتبین کی امداد جائز ہے۔ اور امام مالک اور امام احمد یہ کہتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال سے لونڈی اور غلام کو خرید کر آزاد کرنا بھی جائز ہے اور صدقات قرضداروں کے قرضہ ادا کرنے کے لیے بھی ہیں۔ غارمین سے وہ قرضدار مراد ہیں جن کے پاس اتنا اثاثہ نہیں کہ جس سے وہ قرضہ ادا کرسکیں بشرطیکہ وہ قرضہ انہوں نے جائز ضرورت کے لیے لیا ہو۔ معصیت اور فسق اور فجور جیسے شراب خوری اور فضول خرچی کے لیے نہ لیا حدیث میں ہے کہ جس نے معصیت کے کاموں کے لیے قرض لیا ہو اس کو صدقات میں کچھ نہ دیا جائے اور نیز یہ صدقات اللہ کی راہ میں صرف کیے جائیں اللہ کی راہ سے جہاد مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ غازی فقیروں اور حاجتمند مجاہدوں کی اس مال سے مدد کی جائے تاکہ وہ اس مال سے سفر جہاد کرسکیں اور سامان جہاد ہتھیار وغیرہ خرید سکیں اور نیز یہ صدقات بےسروسامان مسافروں کی امداد میں خرچ کیے جائیں جو اپنے گھر سے خر چمنگانے پر قادر نہیں اور نہ قرض لینے پر قادر ہیں تو ایسے بےسروسامان مسافروں کو زکوٰۃ وصدقات میں اتنی رقم دے دینی چاجئز ہے کہ جس سے وہ اپنے گھر پہنچ سکیں یہ حکم اللہ کی طرف سے مقرر ہے لہذا اللہ کے نبی نے اللہ کے حکم کے مطابق جس طرح صدقات کو تقسیم کردیا اس میں کسی کے لیے اعتراض کی گنجائش نہیں اور اللہ بندوں کی حاجتوں اور مصلحتوں کو جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اس کو مناسب اور نامناسب کا علم ہے صدقات کے متعلق اس نے جو حکم دیا وہ عین حکمت اور عین مصلحت ہے حق تعالیٰ چون درحکم کشاد ہر کسے را آنچہ می بائیداد نیست واقع اندراں قسمت غلط بندہ را خواہی رضا خواہی سخط چونکہ منافقین نے آنحضرت ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے خود صدقات کی تقسیم کا طریقہ مقرر کردیا۔ اور اس کے مصارف متعین فرما کر ان کی فہرست نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں دے کہ کہ آپ اس کے مطابق تقسیم کریں تاکہ کوئی حریص اور خود غرض آپ کی تقسیم پر اعتراض نہ کرسکے اللہ تعالیٰ نے صدقات کی تقسیم کو کسی کی مرضی پر نہیں چھوڑا بلکہ بذات خود اس کے مصارف متعین کردئیے جو آٹھ ہیں ان کے سوا کسی اور مصرف میں ان کا صرف کرنا جائز نہیں اب ہم ان آٹھ مصفروں کو جدا جدا تفصیل دار بیان کرتے ہیں۔ تفصیل مصارف صدقات 1 ۔ الفقراء۔ 2 ۔ المساکینَ ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فقراء اور مساکین یہ دونوں محتاجین کی دو علیحدہ، علیحدہ قسمیں ہیں ان کی تفسیر میں علماء سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ فقیر وہ ہے کہ جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور مسکین وہ ہے کہ جس کے پاس بقدر ضرورت و کفایت نہ ہو غرض یہ کہ سخت افلا اس اور بدحالی کا نام فقر ہے چناچہ سخت مصیبت کو عربی زبان میں فاقرہ کہتے ہیں اور فقیر اصل میں فقار سے مشتق ہے جس کے معنی کمر کی ہڈی کے ہیں۔ فقیر کو فقیر اس لیے کہتے ہیں کہ سخت افلاس نے اس کی فقار (کمر) توڑ دی ہے۔ اور مسکین وہ ہے کہ جس کے پاس مال میں سے کوئی ادنی سی چیز موجود ہو مگر اس کی ضرورت کے لیے قطعاً کافی نہ ہو یہ لفظ سکون سے مشتق ہے چونکہ اس کے پاس سکون قلب کا ذریعہ موجود نہیں اس لیے اس کو مسکین کہتے ہیں یا یہ وجہ ہے کہ بےسروسامانی کی وجہ سے ساکن ہے متحرک نہیں۔ بہرحال احتیاج فقیر میں بھی پائی جاتی ہے اور مسکین میں بھی مگر جمہور علماء کے نزدیک فقیر محتاجی میں سب سے بڑھ کر ہے اور مسکین محتاجی میں فقیر سے کم درجہ میں ہے اس لیے حق جل شانہ نے مصارف صدقات میں سب سے پہلے فقراء کا ذکر فرمایا کیونکہ فقراء بہ نسبت دیگر اصناف کے محتاج تر ہیں اور امام ابو حنفہ کے نزدیک معاملہ بر عکس ہے امام اعظم کے نزدیک مسکین فقیر سے زیادہ بدتر ہے امام ابوحنیفہ کے نزدیک فقیر وہ کہ جس کے پاس مقدار نصاب مال نہ اور مسکین وہ ہے کہ پاس کچھ بھی نہ ہو۔ کما قال تعالیٰ او مسکینا ذا متربہ۔ مسکین وہ ہے کہ جس کے پاس سوائے مٹی کے کچھ نہ ہو۔ 3 ۔ عاملین : مصارف صدقات کی تیسری قسم عاملین ہے۔ عاملین سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف تحصیل صدقات کے کام پر تعینات ہوں ان کو بھی اس مال سے بقدر ضرورت و کفایت دے دیا جائے اگرچہ وہ غنی ہوں جاننا چاہیے کہ عاملین کو جو کچھ دیا جائے گا وہ بطریق زکوٰۃ نہیں بلکہ بطریق عمالہ ہے اور پھر یہ عمالہ بقدر کفاف اور بقدر ضرورت و کفایت ہے۔ یعنی ضرورت اور کفایت کے مطابق ان کو دیا جائے۔ جس کی مقدار کوئی معین ہیں اس لیے اس کو اجرت اور معاوضہ نہیں کہا جاسکتا جیسا کہ علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں قولہ تعالیٰ والعاملین علیھا وھم السعاۃ الجبایۃ الصدقۃ یعطون منھا بقدر اجور امثالھم ولیس ما یاخذونہ بزکوۃ (زاد المسیر ص 457 ج 3) غرض یہ کہ عامل اور محصل کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ درحقیقت اس کی آمدورفت کا خرچ ہے زکوٰۃ اور صدقہ نہیں کیونکہ زکوٰۃ میں شرط یہ ہے کہ کہ وہ کسی عمل کے عوض اور مقابلہ میں نہ و بلکہ زکوٰۃ کی حقیقت ہی تملیک المال بغیر عوض ہے (دیکھو بنایہ شرح ہدایہ ص 115 ج 1 کنز الدقائق ص 55) حضرات اہل علم تفصیل کے لیے بدائع الصنائع ص 44 ج 2 دیکھیں۔ قرآن و حدیث سے یہ بداہۃً معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ وصدقات در اصل حق فقراء کا ہے مگر چونکہ عاملین صدقات نے تحصیل صدقات میں فقراء کی خدمت انجام دی ہے اس لیے عاملین کو حکماً فقراء کے زمرہ میں شمار کر کے یا ان کا خاد ہونے کی حیثیت سے صدقات میں سے بطور عمالہ اور بطور صلہ خدمت فقط بقدر ضرورت و کفایت کچھ دے دینے کیا جازت دے دی گئی کیونکہ زکوٰۃ اصل حق فقراء کا ہے عامل کو فقراء کی طرف سے بطور حق الخدمت دے دیا گیا نہ بطور زکوٰۃ۔ خلاصۂ کلام یہ کہ عاملین کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ بطور عمالہ ہے نہ کہ بطور صدق وزکوۃ کیونکہ یہ امر سب کے نزدیک مسلم ہے کہ غنی کو صدق اور زکوٰۃ کا مال حلال نہیں اور عاملین کے لیے صدقات میں سے لینا جائز ہے اگرچہ وہ غنی ہوں پس معلوم ہوا کہ عاملین کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ ان کی دینی خدمت کا صلہ اور انعام ہے نہ کہ اجرت اور معاوضہ اور پھر یہ عمالہ اور صلہ بھی بقدر کفاف و ضرورت ہے لہذا اس عمالہ اور صلہ کو یہ سمجھنا کہ یہ عاملین صدقات کا مشاہرہ اور ان کی تنخواہ تھی اور پھر اس پر یہ قیاس کرنا کہ اسی طرح مدرسہ کے مدرسین اور ملازمین کی تنخواہیں بھی زکوٰۃ کے روپیہ سے دینا جائز ہے قطعاً (بلکل) غلط ہے مدرسین اور ملازمین کو جو مشاہرہ ملے گا وہ ان کے عمل کا عوض اور اسکی اجرت ہوگی اور زکوٰۃ میں یہ شرط ہے کہ تملیک بلا عوض ہو اور خدمت کا معاوضہ اجارہ ہے نہ کہ صدقہ۔ اور عہد رسالت اور زمانہ خلافت راشہ میں قاضیوں اور مفتیوں کو جو وظیفے دئیے جاتے تھے وہ مال غنیمت کے خمس اور جزیہ اور خراج کی آمدنی سے دئیے جاتے تھے اور زکوٰۃ اور صدقات کی مد سے کبھی بھی قاضیوں اور مفتیوں کو تنخواہیں نہیں دی گئیں اور آج کلہ مدارس اسلامیہ میں جو زکوٰۃ کی رقم آتی ہے وہ صرف نادار طلبہ کے وظائف میں خرچ کی جاتی ہے اور ان کو اس کا مالک بنادیا جاتا ہے اس رقم میں سے نہ مدرسین اور ملازمین کو تنخواہ دی جاتی ہے اور نہ مسجدوں اور مدرسہ کی تعمیر میں صرف ہوتی ہے اس لیے کہ زکوٰۃ میں فقراء کو مالک بنانا شرط ہے بغیر تملیک زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی۔ 4 ۔ مؤلفۃ القلوب : مؤلفۃ القلوب سے وہ نومسلم مراد ہیں کہ جنہوں نے اسلام تو قبول کرلیا مگر ہنوان ان کا اسلام کمزور ہے اور غریب اور نادار ہیں اندیشہ ہے کہ پھسل نہ جائیں اسلیے ان کو صدقات میں سے دیا جائے۔ تاکہ اسلام پر قائم اور ثابت رہیں اکثر علماء کے نزدیک آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد یہ مد باقی نہیں رہا۔ صدیق اکبر ؓ کے عہد خلافت میں صحابہ کا اس پر اجماع ہوگیا کہ اب زکوٰۃ اور صدقات میں سے مؤلفۃ القلوب کا سہم ساقط ہوگیا۔ تفسیر قرطبی ص 181، ج 8 اور دیکھو زاد المسیر ص 485 ج 3 البتہ مؤلفۃ القلوب میں سے جو لوگ حاجتمند اور غریب ہوں تو فقراء میں ہونے کی وجہ سے اب بھی ان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے کیونکہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک عاملین صدقات کے علاوہ باقی تمام مصارف میں فقر اور حاجتمندی شرط ہے اس لیے مؤلفۃ القلوب کو اسی شرط کے ساتھ دیا جاسکتا ہے کہ وہ فقراء اور حاجتمند ہوں جیسے رقاب اور غارمین اور ابن سبیل کو اسی شرط کے ساتھ زکوٰۃ دی جاتی ہے کہ وہ حاجتمند ہوں اور کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم نے کسی کافر کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ اور صدقات میں کچھ دیا ہو جن روایتوں میں صفوان بن امیہ وغیرہ کو دینے کا ذکر آیا ہے۔ سو وہ مال غنیمت کے خمس میں سے دیا گیا ہے نہ مال زکوٰۃ سے (دیکھو تفسیر مظہری صفحہ 236 ج 4) 5 ۔ وفی الرقاب : رقاب سے مکاتبین مراد ہیں اور مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں کہ جس نے اپنے ا آقا سے عیہ وعدہ کیا ہو کہ اتنا معاوضہ ادا کرنے پر آزاد ہوجاؤں گے۔ سو ایسے عغلاموں کو بھی صدقہ دیا جائے تاکہ وہ بدل کتابت ادا کرکے اپنی گردنوں کو غلامی کے پھندے سے نکال لیں یا کسی مسلمان قیدی کو دیا جائے کہ وہ اس مال سے اپنا فدیہ دے کر رہائی حاصل کرے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ گردنوں کے چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ زکوٰۃ کے روپے سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں مگر راجح پہلا ہی قول ہے۔ 6 ۔ والغارمین : غارمین سے وہ مفلس قرضدار مراد ہیں جنہوں نے جائز ضرورت کے لیے قرض لیا تھا مگر بعد میں ادا نہ کرسکتے ایسے قرضداروں کی زکوٰۃ وصدقات کے پیسہ سے امدا کرنی چاہیے۔ مگر جس نے معصیت کے کاموں کے لیے قرض لیا ہو۔ اس کو صدقات میں سے کچھ نہ دیا جائے اور فتاوی ظہیریہ میں ہے کہ قرضدار کو زکوٰۃ دینا بہ نسبت فقیر کے زیادہ بہتر ہے۔ 7 ۔ فی سبیل اللہ : فی سبیل اللہ سے بےسروسامان مجاہدین کی اعانت کرنا مراد ہے مطلب یہ ہے کہ غازی فقیروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے تاکہ وہ اس مال سے ہتھیار و سامان جہاد خرید کرسکیں اور جہاد کے لیے سفر کرسکیں جو مجاہد غنی ہو اس کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی اور بعض فقہاء یہ کہتے ہیں کہ فی سبیل اللہ سے دین کے طالب علم مراد ہیں جو خالص دین کی تعلیم میں مشغول ہوں اور ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہ ہو تو ایسے حاجت مند طالب علموں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔ خالص دینی تعلیم کی قید اس لیے لگائی کہ جو خاص دنیوی تعلیم کا طالب ہو وہ تو ظاہر ہے کہ وہ کسی طرح بھی فی سبیل اللہ کا مصداق نہیں ہوسکتا البتہ جو دینی اور دنیوی مخلوط تعلیم کا طالب وہ بھی صحیح طور پر فی سبیل اللہ کا مصداق نہیں اور تمام فقہاء کا اجماع ہے کہ فاسق وفاجر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ 8 ۔ ابن السبیل : ابن السبیل سے وہ مسافر مراد ہے جس کے پاس سفر خرچ نہ رہا ہو اور وہ اپنے گھر سے خرچ منگانے پر بھی قادر نہ ہو اور نہ قرض لینے پر قادر ہو تو ایسے مسافر کو بقدر سفر خرچ زکوٰۃ دے دینا جائز ہے جس سے وہ اپنے گھر پہنچ جائے۔ مسئلہ تملیک : فقہاء کرام کے نزدیک تمام مصارف زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے یعنی جس کو زکوٰۃ دی جائے اس کو پورا مالک بنادیا جائے کہ وہ جو چاہے اس میں تصرف کرے بغیر تملیک کے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اس لیے کہ صڈقہ اور زکوٰۃ کی حقیقت ہی تملیک ہے۔ یعنی اپنے مال کا ایک حصہ اپنی ملک سے بالکلیہ نکال کر فقراء اور مساکین کو بلا کسی عوض اور بلا کسی فائدہ اور منفعت کے محض اللہ کے لیے مالک بنادینے کا نام صدقہ اور زکوٰۃ ہے۔ قرآن کریم میں جا بجا یتاء زکوٰۃ کا حکم مذکور ہے اور ایتاء کے معنی لغۃ وشرعا اعطاء کے ہیں اور اعطاء کے معنی یہ ہیں کہ کسی شیئ کو اپنی ملک سے نکال کر کسی کو اس طرح عطا کردینا کہ وہ اس کا مالک اور مختار بن جائے یعنی لینے والا اس پر قابض بھی ہوجائے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرسکے اس لیے کہ تملیک جب ہی مکمل ہوگی کہ جب تفویض و تسلیم بھی اس کے ساتھ مقرون ہو جب تک مالک وہ مال اپنی ملک سے اور اپنے قبضہ سے نکال کر فقیر کے ھوالہ اور سپرد نہ کرے گا تملیک تمام نہ ہوگی۔ قرآن کریم میں ادائیگی مہر کے لیے لفظ ایتاء استعمال ہوا ہے کما قال تعالیٰ واتوا النساء صدقاتھن نحلۃ اور ظاہر ہے کہ مہر کی ادائیگی جب ہی ہوگی کہ جب مہر کی رقم پر عورت کا مالکانہ قبضہ ہوجائے جب تک کسی چیز کو اپنے قبضہ سے نکال کر دوسرے کے قبضہ میں نہ دیدے اس کو عطیہ نہیں کہا جاسکتا۔ صدقہ ہو یا ہبہ ہو یا عطیہ ہو بغیر تملیک و تسلیم کے عقلاً ونقلاً بےمعنی ہے اگر کوئی شخص کسی کو اپنے گھر دعوت دے اور ایوان نعمت کا دستر خوان اس کے سامنے بچھا دے تو یہ اباحت اور ضیافت کہلائے گی۔ تملیک نہیں کہلائے گی اس لیے کہ دعوت اور ضیافت کے معنی محض اجازت کے ہیں کہ جتنا چاہیں تناول فرمائیں مگر یہ تملیک نہیں اس لیے مہمان کو اس میں تصرف کا اختیار نہیں کہ جس کو چاہے دسترخوان سے کھانا اٹھا کر ہبہ کردے یہی وجہ ہے کہ محض دعوت و ضیافت سے بالاجماع زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اور اگر کھانا پکا کر کسی شخص کے دے دیا جائے کہ وہ اس کھانے کو اپنے گھر لے جائے اور جس کو چاہے کھلائے تو تملیک ہے۔ غرض یہ کہ زکوٰۃ کے لیے تملیک شرط ہے یہی وجہ ہے کہ تمام ایمہ دین کا اس پر اجماع ہے کہ زکوٰۃ کے روپے مسجد اور مدرسہ اور خانقاہ اور مسافر خانہ کی تعمیر درست نہیں اور علی ہذا زکوٰۃ کے روپیہ سے کسی مردہ کی تجہیز وتکفین اوراقبار و تدفین جائز نہیں اس لیے کہ ان تمام صورتوں میں کسی فقیر و مسکین تملیک متحقق نہیں مسجد اور مدرسہ کی تعمیر میں ظاہر ہے کہ تملیک نہیں اور کفن اور دفن سے مردہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوجاتا اور اگر کسی کو چند روزہ استعمال کے لیے کوئی چیز دے دی جائے تو وہ عاریت کہلائے گی ہبہ اور عطیہ شمار نہ ہوگی اس لیے کہ اس میں تملیک نہیں اور زکوٰۃ اور صدقہ کا درجہ تو تملیک میں ہبتہ اور عطیہ سے بھی بڑھ کر ہے تو صدقہ میں بدرجۂ اولی تملیک ضروری ہوگی غرض یہ کہ صدقہ اور زکوٰۃ کے لیے یہ ضروری ہے کہ حکم خداوندی کے مطابق کسی مسلمان فقیر کو بلا کسی عوض اور بلا کسی فائدہ اور منفعت کے مال زکوٰۃ کا اس طرح مالک بنادیا جائے کہ اس مال سے مالک بنانے والے کی منفعت بالکلیہ منقطع ہوجائے۔ یہ دو قیدیں اس لیے لگائی گئیں کہ اگر کسی کسی کسی خدمت کے معاوضہ میں مال دیا گیا تو عقلاً اور شرعاً یہ زکوٰۃ اور صدقہ نہیں کہلائے گی۔ بلکہ اجرت اور تنخواہ کہلائے گی اس لیے کہ صدقہ اس تملیک کو کہتے ہیں جو بلا کسی عوض اور بلا کسی فائدہ اور منعفت کے محض اللہ کے لیے ہو اور گر کسی خدمت کے معاوضہ میں کچھ دیا جائے تو وہ اگرچہ تملیک ہے مگر وہ تملیک بالعوض ہے تملیک بلا عوض نہیں اس للیے وہ صدقہ نہیں کہلائے گی بلکہ اجرت اور تنخواہ کہلائے گی۔ اور دوسری قید یعنی تملیک اس طرح ہو کہ اس مال سے مالک بنانے والے کی منفعت بالکلیہ منقطع ہوجائے اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اپنی اصول و فروع یعنی باپ دادا نانا نانی وغیرہ اور بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں کیونکہ اصول و فروع کو زکوٰۃ دینے میں زکوٰۃ دینے والے کی اس مال سے منفعت بالکلیہ منقطع نہیں ہوتی بلکہ من وجہ باقی رہتی ہے بلکہ ایک حیثیت سے اپنے پاس ہی رہتی ہے عرف میں ماں باپ اور اولاد ایک ہی سمجھے جاتے ہیں۔ حدیث میں ہے انت ومالک لابیک تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے اور قرآن کریم میں ہے ووجدک عائلا فاغنی اور اللہ نے آپ کو محتاج پایا۔ پس خدیجہ ؓ کے مال سے آپ کو غنی کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور ایمہ دین کے نزدیک میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں سے سکتے۔ اس لیے کہ منافع زوجین مشترک ہیں ایک دوسرے کی ملک سے منتفع ہوتا ہے حتی حدیث میں اپنے دئیے ہوئے صدقہ کو خریدنے کی بھی ممانعت آئی ہے کیونکہ ایسی صورت میں بائق ضرور صدقہ دینے والے کی رعایت کرتے اور بہ نسبت اوروں کے اس کو کم قیمت میں دے گا تو ایسی صورت میں فی الجملہ اپنے صدقہ سے نفع اٹھانا ہوگا اور اسی فائدہ اور منفعت کے لحاظ سے شریعت نے باپ کی بیٹے کے لیے اور شوہر کی بیوی کے لیے شہادت معتبر نہیں مانی۔ مسئلہ تملیک کے متعلق ہم نے یہ مختصر سا لکھ دیا ہے تاکہ مسلمان اپنی زکوٰۃ میں احتیاط برتیں اور جو لوگ زکوٰۃ میں تملیک کے قائل نہیں ان کو زکوٰۃ دینے سے پرہیز کریں تفصیل کے لیے کتب فقہ کی مراجعت کریں اور اس وقت جو مختصر کلام ہدیہ ناظرین کیا وہ تمام تر امام علاء الدین کا سانی کے کلام کی توضیح وتشریح ہے۔ حضرات اہم علم بدائع الصنائع ص 39 ج 2 کی مراجعت کریں۔ اسرار حکم نکتہ اولی : مصارف صدقات کی آٹھ قسموں میں سے اول کی چار قسموں کو لام کے ذریعے بیان کیا یعنی للفقرائ والمساکین فرمایا اور اخیر کی چار قسموں کو یعنی وفی الرقاب والغارمین الخ کو لفظ فی کے ذریعے بیان کیا گیا وجہ اس کی یہ ہے کہ اول کی چار قسمیں ذاتی طور پر مستحق ہیں اور اسی ذاتی استحقاق کے بیان کرنے کے لیے کلمہ لام لایا گیا اور اخیر کی چار قسمیں لفظ فی کی ذریعہ سے بیان کی گئیں وجہ اس کی یہ ہے کہ لفظ فی سببیت اور علیت بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے عذب فلان فی سرقۃ یعنی فلاں کو چوری کے سبب سے سزا ملی۔ پس آیت میں لفظ فی سے اشارہ اس طرح ہے کہ ان اخیر کی چار قسموں کو ذاتی استحقاق کی بنا پر نہیں بلکہ ان مصلحتوں اور ضرورتوں کے سبب سے ان کو زکوٰۃ دینے کی اجازت دی گئی کہ اپنی گردن کو غلامی سے چھڑا لیں اور قرض سے سبکدوشی حاصل کریں اور جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سر انجام دے سکیں اور اپنے سفر کو پورا کرسکیں۔ ان اسباب اور وجوہ کی بناء پر ان لوگوں کو صدقات دینے کی اجازت دی گئی اس لیے ان اخیر کی چار قسموں میں لفظ فی تعلیل اور سببیت کے بیان کے لیے لایا گیا اور اول کے چار اقسام میں لفظ لام ذاتی استحقاق بیان کرنے کے لیے لایا گیا۔ دیکھو صاوی ص 154 ج 2 اور دیکھو روح البیان ص 253 ج 3 ۔ یا یوں کہو کہ کہ ان ان اخیر کے چار قسموں میں لفظ فی اس لیے استعمال کیا گیا کہ یہ چار قسمیں فقراء اور مساکین سے بڑھ کر مستحق ہیں اس لیے کہ لفظ فی اس لیے استعمال کیا گیا یہ چار قسمیں فقراء اور مساکین سے بڑھ کر مستحق ہیں اس لیے کہ لفظ فی کلام عرب میں ظرفیت اور محلیت کے بیان کرنے لیے آتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ صدقہ اور زکوٰۃ کا اصل محل اور اصل ظرف مکاتبین اور غارمین اور مجاہدین اور بےسروسامان مسافرین ہیں ان لوگوں کو اپنے صدقات کا خالص طور پر محل اور ظرف بناؤ۔ کیونکہ یہ لوگ بہ نسبت فقراء و مساکین کے زیادہ ضرورت مند اور زیادہ تکلیف میں ہیں ان کو اتنی تکلیف نہیں جتنا کہ غلامی اور دوسرے کے قرض میں ہے لہذا یہ آخری چار بہ سنبت پہلے چار کے زیادہ مستحق ہیں اور غلام اور مقروض کی گلو خلاصی زیادہ موجب فضیلت ہے اور پھر ان چار قسموں میں مجاہدین اور مسافرین کی امداد تو بہت ہی اہم ہے اس لیے وفی سبیل اللہ میں لفظ فی کو اسی ترقی اور مبالغہ کے بیان کرنے کے لیے مکرر لایا گیا کہ غازی اور مسافر سب سے زیادہ مستحق اعانت ہیں (دیکھو بنایہ شرح ہدایہ ص 1250 ج 1 تفسیر کشاف وروح المعانی ص 113 ج 1) نکتۃ دوم : زکوٰۃ وصدقات کے اصل مصرف فقراء ہیں جن کا اس آیت کے شروع میں ذکر فرمای اور باقی سب فقراء ہی کی انواع و اقسام ہیں حاجتوں کی قسمیں مختلف ہیں اس لییے حاجتمند بھی مختلف قسم کے ہوئے اور مطلق فقراء اور احتیاج سب میں قدر مشترک ہے اور فقراء کی اعلی قسم مسکین ہے پس والمساکین سے لے کر آخرت تک تمام معطوفات عطف خاص علی العام کے قبیل سے ہیں۔ جو سب کے سب فقراء کے تحت مندرج ہیں۔ رقاب اور غارمین اور فی سبیل اللہ اور ابن اسبیل کو علیحدہ علیحدہ اس لیے بیان کیا تاکہ حاجتوں اور ضرورتوں اجمالی علم ہوجائے اور اہل دولت متنبہ ہوجائیں کہ اپنی زکوٰۃ وصدقات کے خرچ کرتے وقت ان ضرورتوں اور اس قسم کے حاجتمندوں کا خاص طور پر لحاظ رکھیں ورنہ حاجتیں بیشمار ہیں ان آٹھ اور سات میں منحصر نہیں قرآن کریم میں جا بجا صدقات کے مصرف میں صرف فقراء کا ذکر کیا ہے کہ صدقات کے اصل مصرف فقراء ہیں کما قال تعالیٰ ان تبدو الصدقات فنعماھی وان تخفوھا وتؤتوھا الفقراء فھو خیر لکم۔ و قال تعالیٰ للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم۔ وقال تعالیٰ للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیاء من التعفف تعرفھم بسیماھم لا یسئلون الناس الحافا۔ اور معاذ بن جبل ؓ کی حدیث میں ہے ان اللہ افترض علیھم صدقۃ توخذ من اغنیاء ھم فترد علی فقراء ھم تحقیق میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ فرض کیا ہے کہ ان کے اغنیاء سے صدقہ لیا جائے اور ان کے فقراء میں اس کو لوٹا دیا جائے۔ اس حدیث میں فقراء کے ذکر پر اکتفا فرمایا۔ اور کہیں کہیں مسکین کا ذکر فرمایا۔ فاطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم۔ ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما واسیرا۔ پس جس طرح یتیم واسیر دونوں مسکین ہی کی ایک قسم ہیں۔ اسی طرح مساکین بھی فقراء کی ایک قسم ہیں۔ معلوم ہوا کہ آیت میں جس قدر اصناف اوراقسام کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب فقراء ہی کی قسام ہیں اس لیے امام ابوحنیفہ اور جمہور ائمہ دین کے نزدیک مصارف صدقات کے تمام انواع و اقسام میں فقر اور احتیاج شرط ہے بغیر فقر کے کسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں۔ مسئلہ : زکوٰۃ صرف مسلمان فقیر کو دی جاسکتی ہے غیر مسلم فقیر کو بالاجماع زکوٰۃ دینا جائز نہیں زکوٰۃ کا حکم صرف مسلمان فقیروں ہی کی اعانت کے لیے نازل ہوا ہے اور غیر مسلم فقیر کی اعانت جزیہ اور خراج کی آمدنی سے کی جائے۔ جیسا کہ کتب فقہ میں بالتفصیل مذکور ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ زکوٰۃ کا صل مصرف فقراء ہیں اور باقی اصناف سبعہ۔ سب فقراء ہی کی انواع و اقسام ہیں سوائے عالمین کے ہر جگہ فقر اور حاجتمندی شرط ہے اور عالمین اگرچہ غنی ہوں ان کو اس مال سے دینا اس لیے جائز ہوا کہ وہ حکما فقراء کے قائم مقام قرار دئیے گئے۔ صدقات دراصل حق فقراء کا ہے اور وہی اس کے اصل مصرف ہیں۔ عالمین کو جو کچھ دیا دیا جارہا ہے وہ درحقیقت فقراء کی طرف سے بطورصلہ اور تبرع ان کو دیا جارہا ہے نہ کہ بطور زکوٰۃ و صدقہ (دیکھو تفسیر مظہری ص 239 ج 4) اور فقراء ان سات قسموں میں منحصر نہیں حق تعالیٰ نے ان اقسام کا ذکر ان ضرورتوں کی اہمیت بتلانے کے لیے فرمایا کہ یہ ضرورتیں بہ نسبت اور ضرورتوں کے اہم اور مقدم ہیں۔ (دیکھو تفسیر مظہری ص 239 ج 4 ) بحمداللہ اس تفصیل سے یہ امر بخوبی واضح ہوگیا کہ زکوٰۃ اور صدقات کی حقیقت کسی مسلمان فقیر اور مسکین کو محض اللہ کی خوشنودی کے لیے بلا کسی عوض کے مالک بنادینا ہے۔ زکوٰۃ اللہ کی عبادت ہے جس کا درجہ نماز کے بعد ہے جو کسی عمل کا عوض اور اس کی اجرت نہیں اور علت اس کی فقر اور مسکنت ہے بشرطیکہ وہ فقیر اور مسکین مسلمان ہو غیر مسلم فقیر کو زکوٰۃ دینا بالاجماع جائز نہیں لہذا کسی ادارہ کے مہتمم یا ناظم یا ملازم کو زکوٰۃ کی رقم سے تنخواہ دینا جائز نہیں کیونکہ یہ تنخواہ اس کے عمل اور کارکردگی کا معاوضہ ہوگی اور خالص لوجہ اللہ نہیں رہا عاملین صدقات کے بارے میں جو حکم آیا ہے اس پر ملازمین اور مدرسین کا قیاس ہرگز درست نہیں۔ اس لیے کہ عاملین شرعی طور پر فقراء اور مساکین کے وکیل اور ان کے قائم مقام ہیں۔ عالمین نے محض فقراء مسلمین کے فقر اور مسکنت کی خاطر روپیہ جمع کیا ہے اس کے علاوہ عاملین کا اور کوئی مقصد نہیں۔ بخلاف کسی دینی ادارہ اور مدرسہ کے اور کسی یتیم خانہ کے کہ اس کا مقصد کوئی خاص علمی یا صنعتی تربیت ہوتا ہے۔ محض فقراء مسلمین کی محض مسلمان فقیر ہونے کی حیثیت سے اس کی ذاتی اعانت اس کا مقصد نہیں ہوتا اس لیے کسی مدرسہ اور ادارہ کا مہتمم یا ناظم یا ملازم فقراء مسلمین کا وکیل اور قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ شریعت نے محض فقراء مسلمین کی ضرورت اور مصلحت اور ان کی اعانت کے لیے عاملین کو فقراء مسلمین کا وکیل اور قائم مقام قرار دیا ہے جس کا تقرر بادشاہ اسلام کے حکم سے ہوتا ہے اس لیے آج کل اسلامی مدارس یا اسلامی انجمنوں کے ناظمین اور محصلین چندہ فقراء مسلمین کے وکیل قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ اور نہ ان کو زکوٰۃ کی رقم میں سے تنخواہ دی جاسکتی ہے۔ البتہ اسلام مدرسہ اور ادارہ کا مہتمم زکوٰۃ کی رقم سے ان طالب علموں کو وظیفہ دے سکتا ہے جو خالص علم دین حاصل کرتے ہیں اور فقیر اور مسکین ہوں اور صحیح العقیدہ مسلمان ہوں اس لیے کہ شریعت کے اصول مسلمہ میں سے یہ ہے کہ زکوٰۃ مسلمان فقیر کا حق ہے غیر مسلم کا زکوٰۃ میں کوئی حق نہیں اور مثلاً جو اشتراکیت اور کمیونزم کا قائل ہو یا منکر حدیث ہو یا آزاد منش ہو وہ قطعاً مسلمان نہیں اس کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی۔ اے مسلمانو ! خوب سمجھ لو زکوٰۃ اللہ کی عبادت ہے اس کے حکم سے تم کو زکوٰۃ دیتے ہو اس کے حکم پر چلو جو اس ناچیز نے تم کو بتلا دیا اپنی عبادت کو ضاع نہ کرو۔ وما علینا الا البلاغ۔
Top