Maarif-ul-Quran - At-Tawba : 74
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا١ؕ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا١ۚ وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ١ۚ وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی مَا قَالُوْا : نہیں انہوں نے کہا وَلَقَدْ قَالُوْا : حالانکہ ضرور انہوں نے کہا كَلِمَةَ الْكُفْرِ : کفر کا کلمہ وَكَفَرُوْا : اور انہوں نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِسْلَامِهِمْ : ان کا (اپنا) اسلام وَهَمُّوْا : اور قصد کیا انہوں نے بِمَا : اس کا جو لَمْ يَنَالُوْا : انہیں نہ ملی وَ : اور مَا نَقَمُوْٓا : انہوں نے بدلہ نہ دیا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں غنی کردیا اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَاِنْ : سو اگر يَّتُوْبُوْا : وہ توبہ کرلیں يَكُ : ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ : ان کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّتَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں يُعَذِّبْهُمُ : عذاب دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : کوئی وَّلِيٍّ : حمایتی وَّلَا : اور نہ نَصِيْرٍ : کوئی مددگار
یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ) نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کا کلمہ کہا ہے اور یہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور ایسی بات کا قصد کرچکے ہیں جس پر قدرت نہیں پا سکے اور انہوں نے (مسلمانوں میں) عیب ہی کونسا دیکھا ہے سوا اس کے کہ خدا نے اپنے فضل سے اور اس کے پیغمبر ﷺ نے (اپنی مہربانی سے) ان کو دولتمند کردیا ہے ؟ تو اگر یہ لوگ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا اور اگر منہ پھیر لیں تو خدا ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب دیگا۔ اور زمین میں ان کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا۔
تفصیل جرائم منافقین قال اللہ تعالیٰ ۔ یحلفون باللہ ما قالو۔۔۔ الی۔۔۔ فاقعدوا مع الخالفین۔ (ربط): گزشتہ آیت میں منافقین سے جہاد کا حکم دیا تھا آئندہ آیات میں منافقین کے نفاق اور کفر کی چند باتیں ذکر کرتے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ منافقین کی یہ باتیں ایسی ہیں جن سے ان کا نفاق آشکارا اور ظاہر ہوچکا ہے اس لیے ان کے ساتھ شدت اور غلظت یعنی سختی کی شدید ضرورت ہے اور وہ اسی کے مستحق ہیں نکوئی بابداں کردن چنانست کہ بد کردن بجائے نیک مرداں ان کے ساتھ نرمی کا رویہ نہ رکھنا چاہئے اس لیے آئندہ آیات میں منافقین کے چند جرائم کا ذکر کرتے ہیں جو ان سے جہاد اور غلظت کو مقتضی ہیں اس سلسلہ میں حق تعالیٰ نے ان کا ایک جرم تو حلفت کا ذاب ذکر کیا۔ کما قال تعالیٰ یحلفون باللہ ما قالوا۔ الخ۔ یعنی کفر کی باتیں کرتے ہیں اور پھر مکر جاتے ہیں اور قسم کھالیتے ہیں کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی۔ (دوم): احسان فراموشی : کما قال تعالیٰ وما نقموا الا ان اغناھم اللہ ورسولہ من فضلہ۔ جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ (سوم): بدعہدی : جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ ومنھم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ لنصدقن۔ الخ۔ (چہارم): مومنین مخلصین کے صدقات و خیرات پر طعنہ زنی : جو مسلمان زیادہ لاتا اس کو یہ کہتے یہ کہ یہ نام ونمود کے لیے لایا ہے اور جو کم لاتا اس کو یہ کہتے کہ خدا کو اس کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ محض انگلی کٹا کر شہیدوں میں داخل ہونا چاہتا ہے جیسا کہ الذین یلمزون المطوعین من ال مومنین فی الصدقات میں اسی کا ذکر ہے۔ (پنجم): منافقین کا غزوۂ تبوک میں خود بھی شریک نہ ہونا اور دوسروں کو بھی شرکت سے منع کرنا کہ گرمی شدت کی پڑ رہی ہے ایسی حالت میں گھر سے باہر نہ جاؤ کما قال تعالیٰ فرح المخلفون بمقعدھم خلاف رسول اللہ الخ۔ پس اس قسم کے جرائم کا مقتضی یہ ہے کہ اس قسم کے مجرمین سے کسی قسم کی نرمی نہ کی جائے۔ چناچہ جرائم کی تفصیل فرماتے ہیں۔ جرم اول۔ حلف کاذب آں حضرت ﷺ جب غزوۂ تبوک سے واپس آرہے تھے تو بارہ منافق آپ ﷺ کے قتل کے ارادہ سے اپنے چہرے چھپا کر ایک گھاٹی پر کھڑے ہوگئے تاکہ آپ ﷺ کو اس پہاڑ سے گرادیں۔ حضرت حذیفہ اور حضرت عمار ؓ آں حضرت ﷺ کے ساتھ تھے۔ انہوں نے ان کو مار کر پیچھے ہٹایا۔ چہرے چھپے ہوئے تھے اور رات کی تاریکی تھی اس لیے پہچانے نہیں گئے آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوگیا آپ نے منزل پر پہنچ کر ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے ایسا ایسا مشورہ کیا تھا اور ایسا ایسا ارادہ کیا تھا سب نے قسمیں کھا لیں کہ ہم نے آپ کی شان میں کوئی کلمہ نہیں کہا اور نہ ہم نے کوئی فاسد ارادہ کیا ان بارہ منافقوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ منافقین اللہ کی جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے وہ بات نہیں کہی جو آپ تک پہنچائی گئی اور حالانکہ انہوں نے یقینا کفر کی بات کہی ہے انہوں نے اپنے کفر کو ظاہر کیا اپنے اسلام کے ظاہر کرنے کے بعد اور قصد کیا انہوں نے اس چیز کا جس کو وہ حاصل نہ کرسکے یعنی ارادہ یہ کیا تھا کہ نبی اکرم ﷺ کو قتل کردیں مگر کامیاب نہ ہوئے یہاں تک کہ منافقین کے جرم اول یعنی جھوٹی قسموں کا بیان ہوا اب آئندہ آیت میں ان کے دوسرے جرم احسان فراموشی کا ذکر کرتے ہیں۔ جرم دوم احسان فراموشی اور نہیں انتقام لیا ان منافقوں نے مگر اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول نے اپنی دعا سے ان کو مال دار بنادیا۔ اہل مدینہ آں حضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے محتاج اور تنگدست تھے جب رسول اللہ ﷺ کا قدم مبارک یہاں آیاتو اس کی برکت سے خدا تعالیٰ نے ان کی کھیتی باڑی میں اور باغوں کی پیداوار میں برکت دی اور ادھر مال غنیمت ان کے پاس آنے لگا جس سے وہ مالدار ہوگئے ان کو چاہئے تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس احسان کے مشکور ہوتے مگر منافقوں نے بجائے شکر گزاری کے آپ کے قتل کا اردہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا یہ کینہ اور عداوت اسی وجہ سے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کو مال دار بنادیا جس سے ان کی احسان فراموشدی اور بدبختی عیاں ہے۔ پس اگر منافق اپنے نفاق سے توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہو اور اگر وہ توبہ سے روگردانی کریں اور اپنے کفر اور نفاق پر جمے رہیں تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا۔ دنیا میں قتل کیے جائیں گے اور ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں دوزخ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے اور زمین میں ان کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار جو ان کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچا لے بعض روایات میں یہ آیا ہے کہ جلاس نامی ایک شخص یہ آیتیں سن کر صدق دل سے تائب ہوگیا اور آئندہ زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردی اور امت کے مخلصین میں اس کا شمار ہوا۔ جرم سوم۔ بد عہدی ثعلبہ بن حاطب نامی ایک شخص نے آں حضرت ﷺ سے کشائش رزق کی درخواست کی آپ نے ارشاد فرمایا۔ ویحک یا ثعلبۃ قلیل تؤدی شکرہ خیر من کثیر لا تطیقہ افسوس اے ثعلبہ (کس فکر میں ہے) تھوڑا مال جس پر خدا کا شکر کرے اس کثیر مال سے بہت بہتر ہے جس کے تو حقوق نہ کرسکے۔ اس نے پھر یہی درخواست کی اس پر آپ ﷺ نے یہ فرمایا : اما ترضی ان تکون مثل نبی اللہ لو شءت ان تسیر معی الجبال ذھبا لسارت۔ اے ثعلبہ کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ تو فقرا اور درویشی میں اللہ کے نبی کے طریقہ پر چلے میں اگر چاہوں تو یہ پہاڑ سونے کے بن کر میرے ساتھ چلنے لگیں۔ ثعلبہ نے کہا خدا کی قسم میں آپ ﷺ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں مالدار ہوگیا تو اس کے حقوق ادا کردوں گا آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمادی خدا تعالیٰ نے اس کی بکریوں میں اس قدر برکت دی کہ وہ کیڑوں کی طرح بڑھنے لگیں اور اس کے پاس اتنا ریوڑ ہوگیا کہ وہ مدینہ میں نہ سما سکا نا چار مدینہ چھوڑ کر باہر کسی گاؤں میں جا بسا اور رفتہ رفتہ جمعہ اور جماعت کے لیے بھی آنا چھوڑ دیا کچھ دنوں کے بعد حضور انور ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے محصل بھیجا تو ازراہ غرور کہنے لگا کہ زکوٰۃ اور جزیہ میں کیا فرق ہے اور زکوٰۃ دینے سے صاف انکار کردیا حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا یا ویح ثعلبۃ۔ افسوس اے ثعلبہ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں (تفسیر قرطبی ص 209 ج 8) پھر بعد میں جب اس کے عزیز و اقارب نے اس پر طعن وتشنیع کی تو وہ زکوٰۃ لے کر حضور پر نور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت نے اس کی زکوٰۃ منظور نہیں کی۔ اس شخص نے بہت وویلا کیا اور بدنامی کے خوف سے سر پر خاک بھی ڈالی مگر حضور پرنور ﷺ نے اس کی زکوٰۃ قبول نہیں کی پھر حضور ﷺ کے بعد ابوبکر صدیق ؓ کی خدمت میں زکوٰۃ لے کر حاضر ہوا انہوں نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت عمر اور پھر ان کے بعد حضرت عثمان کی خدمت میں زکوٰۃ پیش کی دونوں نے انکار فرمادیا ہر ایک نے یہی کہا جو چیز آنحضرت ﷺ نے قبول نہیں کی ہم اس کو قبول نہیں کرسکتے آخر اسی حالت نفاق پر حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں مرگیا۔ چناچہ فرماتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر اللہ نے ہم کو اپنے فضل سے مال دیا تو ہم ضرور صدقہ اور خیرات کریں گے اور زکوٰۃ نکالیں گے اور صدقہ اور زکوٰۃ دے کر ضرور نیک بختوں میں سے ہوجائیں گے۔ پھر جب اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ان کو مال دے دیا تو انہوں نے اس پر بخل کیا اور زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ اور عہد و پیمان سے منہ پھیر لیادر آنحالیکہ وہ ٹلانے والے تھے۔ پس خدا تعالیٰ سے صریح وعدہ خلافی کرنے اور جھوٹ بولنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے قیامت تک کے لیے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا کہ جس دن وہ اللہ کے سامنے پیش ہوں گے یعنی قیامت تک ان کو توبہ سے محروم کردیا جب اللہ سے ملیں اس وقت بھی منافق ہوں گے اور ان کو یہ سزا اس وجہ سے ملی کہ انہوں نے خدا سے وعدہ خلافی کی اور اس لیے کہ خدا سے جھوٹ بولتے رہے اس آیت سے معلوم ہوا کہ وعدہ خلافی اور جھوٹ سے آدمی کے دل میں نفاق پیدا ہوا جاتا ہے۔ اس وجہ سے حدیث میں جھوٹ اور وعدہ خلافی کو نفاق خصلتوں میں شمار فرمایا ہے۔ کیا ان منافقوں نے یہ نہیں جانا کہ تحقیق اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے پوشیدہ اسرار کو اور ان کی کانا پھوسی کو جو اسلام کی مخالفت میں کرتے رت ہے ہیں۔ خوب جانتا ہے اس پر ان کی کوئی کارروائی مخفی نہیں اور ان کو یہ معلوم نہیں کہ تحقیق اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے۔ تمہارے مشورے اس پر پوشیدہ نہیں۔ جرم چہارم۔ اہل ایمان کے صدقات پر طعنہ زنی ایک مرتبہ آں حضرت ﷺ نے مسلمانوں کو صدقہ اور خیرات کی ترغیب دی تو بعض صحابہ تو بہت سا مال لے کر حاضر ہوئے تو منافقین نے کہا کہ یہ تو ریاکار ہے اپنے نام اور شہرت کی خاطر لے کر آیا ہے اور بعض غریب ونادار مسلمان جو محنت و مزدوری کیا کرتے تھے۔ وہ بہت تھوڑا لے کر حاضر ہوئے ایک صحابی ایک صاع کھجور کا لے کر حاضر ہوئے اس پر منافقین نے یہ طعن کیا کہ بھلا خدا اور رسول کو ایک صاع کی کیا ضرورت ہے۔ غرض یہ کہ ان کی زبان طعن سے نہ تھوڑا لانے والا اور نہ زیادہ لانے والا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ان منافقوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو ان مسلمانوں پر بھی طعن کرتے ہیں جو دل کھول کر صدقات و خیرات کرتے ہیں اور ان غریب مسلمانوں پر بھی طعن کرتے جو سوائے اپنی محنت اور مشقت کے کچھ نہیں پاتے پھر ایسے غریبوں اور ناداروں کا خاص طور پر مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ ان غریب مسلمانوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں اللہ قیامت کے دن ان سے ٹھٹھا کرے گا۔ تمسخر کا بدلہ تمسخر سے ملے اور اس کے علاوہ آن کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے جو ان کے لیے قطعی طور پر تجویز ہوچکا ہے۔ لہذا آپ ان مسخرہ پن کرنے والے منافقین کے لیے دعاء مغفرت کریں یا نہ کریں ان کے حق میں بالکل بیکار اور بےفائدہ ہے آپ اگر ان کے لیے ستر مرتبہ بھی خدا سے مغفرت مانگیں گے تب بھی ہرگز اللہ ان کو نہیں بخشے گا ستر کا عدد تحدید اور تعیین کے لیے نہیں بلکہ محض مبالغہ اور کثرت کے لیے ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے معافی مانگنا فضول ہے مانگو یا نہ مانگو کسی طرح نہیں بخشے جائیں گے خواہ تم ان کے لیے کتنی ہی بار معافی مانگو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ ایسا کفر کیا کہ تمسخر کی حد تک پہنچ گئے جس سے مغفرت کی صلاحیت اور اہلیت ہی ختم ہوگئی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ تمسخر دلیل اس امر کی ہے کہ دل پر مہر لگ چکی ہے اور اللہ نہیں راہ دکھاتا ایسے فاسقوں کو جو اپنے کفر میں متمرد اور سرکش ہوگئے ہوں۔ جرم پنجم۔ تخلف از غزوۂ تبوک ان منافقوں کا ایک جرم یہ ہے کہ برائی اور عیب کے کام سے خوش ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس برائی کی دعوت اور ترغیب دیتے ہیں ایسوں کو نبی کے استغفار سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جو لوگ ان منافقین میں سے اپنے اصرار کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دئیے گئے تھے وہ رسول اللہ ﷺ نے جھوٹے عذروں کی بناء پر جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت دے دی تھی وہ رسول اللہ ﷺ کی خلاف مرضی اپنے گھر میٹھے رہنے سے بہت خوش ہوئے یعنی جن منافقوں کو رسول اللہ ﷺ نے جھوٹے عذروں کی بناء پر جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت دے دی تھی وہ رسول اللہ ﷺ کی خلاف مرضی اپنے گھر بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ خلاف کے بعد آپ ﷺ کے پیچھے اپنے گھر بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ خلاف کے معنی مخالف کے نہیں بلکہ خلف بمعنی بعد کے ہیں یعنی رسول اللہ ﷺ کے چلے جانے کے بعد آپ کے پیچھے اپنے گھر بیٹھے رہنے سے پر خوش ہوئے اور اپنے جان و مال سے خدا کی راہ میں جہاد کرنے کو مکروہ سمجھا۔ خود بھی آرام طلب بنے اور دوسروں کو بھی کہنے لگے کہ گرمی میں جہاد کے لیے نہ نکلو نہ خود گئے اور دوسروں کو بھی روکنا چاہا۔ اے نبی آپ ان سے کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ اس سے کہیں زیادہ سخت گرم ہے۔ کاش کہ یہ منافق سمجھتے ہوتے کہ رسول اللہ کی مخالفت میں کتنی سخت آگ میں جلنا پڑے گا۔ سو یہ منافق جو اس وقت جہاد سے پیچھے رہنے پر خوش ہو رہے ہیں دنیا میں تھوڑے دنوں ہنس لیں اور اس کے بدلے آخرت میں بہت سا روئیں یہ امر بمعنی خبر ہے اور صیغۂ امر اس لیے لایا گیا تاکہ دلالت کرے کہ قیامت کے دن بہت سا روئیں ابد الآباد تک روتے ہی رہیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا ہنسنا چند روزہ ہے اس کے بعد رونا ہی رونا ہے یہ ان کا آخرت میں رونا بطور بدلہ کے ہوگا جو دنیا میں کماتے تھے۔ دنیا میں کفر اور معصیت کر کے ہنستے اور خوش ہوتے تھے۔ آخرت میں اس کے بدلہ ابد الآباد تک رونا پڑے گا جب ان کا حال معلوم ہوگیا اگر خدا تعالیٰ آپ کو اس سفر سے صحیح سالم ان میں سے کسی جماعت کی طرف مدینہ واپس لائے پھر یہ لوگ بطور خوشامد ودفع الزام سابق کسی دوسرے غزوہ میں آپ کے ساتھ نکلنے کی اجازت مانگیں تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم میرے ساتھ کبھی ہرگز نہیں نکلو گے اور میرے ساتھ ہو کر ہرگز کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے یعنی اگر آپ غزوۂ تبوک سے صحیح سالم مدینہ واپس آجائیں اور پھر دوسرے غزوہ کی تیاری کریں اور جو منافق اس غزوہ میں آپ کے ساتھ نہیں نکلے وہ اس غزوہ میں آپ کے ساتھ نکلنے کی اجازت مانگیں تو ان کو اجازت نہ دینا اور یہ کہہ دینا کہ تحقیق تم پہلی بار اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے پر خوش رہے سو اب دوسری باری بھی پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں پہلی بار کی طرف اس مرتبہ بھی بچوں اور عورتوں اور ناتواں بوڑھوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ خلاصہ کلام یہ کہ ان آیات میں حق تعالیٰ نے منافقین کی ازلی شقاوت کی خبر دی اور آئندہ کے لیے ان لوگوں کو جہاد میں ساتھ لے جانے سے منع کیا۔ اور گزشتہ آیات میں یہ بتلایا تھا کہ ان لوگوں کے لیے استغفار بےکار ہے یہ ازلی بد بخت ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کی مغفرت کی جائے اب آئندہ آیت میں صراحۃ ان کی نماز جنازہ پڑھنے کی اور ان کے لیے مغفرت کی ممانعت فرماتے ہیں اور آں حضرت ﷺ نے جو عبداللہ بن ابی منافق کی نماز پڑھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آں حضرت ﷺ نے جو عبداللہ بن ابی منافق کی نماز پڑھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آں حضرت ﷺ پر بدرجۂ کمال شفقت و رحمت کا غلبہ تھا جیسا کہ انبیاء کرام کی شان ہے چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے متعلق یہ فرمایا ومن عصانی فانک غفور رحیم اس لیے آپ ﷺ نے یہ جان کر کہ ان کے حق میں استغفار بےسود ہے ہدایت خلق کی حرص اور طمع میں کمال شفقت و رحمت کی بنا پر استغفار کی جانب کو ترجیح دی کہ شاید آپ کی یہ استغفار دوسروں کے حق میں ہدایت کا ذریعہ بن جائے چناچہ آپ کا یہ تلطف دیکھ کر اور بہت سے یہودی مسلمان ہوگئے۔ بہرحال آپ ﷺ پر شفقت و رحمت کا غلبہ تھا اس کے ظاہری اسلام کی بناء پر آپ نے اس منافق کی نماز جنازہ پڑھا دی اور پیراہن مبارک بھی عطا کردیا۔ اس پر آئندہ آیت یعنی ولا تصل علی احد منھم الخ نازل ہوئی جس میں صراحۃ ممانعت ہوگئی اور بتلا دیا گیا کہ نبی کی نماز جنازہ اور نبی کا پیراہن بغیر ایمان کے ذریعہ نجات کا نہیں ہوسکتا۔
Top