Tafseer-e-Madani - Yunus : 41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَذَّبُوْكَ : وہ آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں لِّيْ : میرے لیے عَمَلِيْ : میرے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَمَلُكُمْ : تمہارے عمل اَنْتُمْ : تم بَرِيْٓئُوْنَ : جواب دہ نہیں مِمَّآ : اس کے جو اَعْمَلُ : میں کرتا ہوں وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : جواب دہ نہیں مِّمَّا : اس کا جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور اگر یہ لوگ (ان دلائل کے بعد بھی) آپ کو جھٹلاتے ہی جائیں تو آپ ان سے (آخری بات کے طور پر) کہہ دیں کہ میرے لئے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل نہ تم میرے کسی عمل کے جواب دہ ہو اور نہ ہی میں تمہارے کسی عمل کا،
77 ۔ منکرین و مکذبین سے اعلان برات و بیزاری : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہٹ دھرموں کے لیے آخری جواب اعلان و اظہار بیزاری ہے کہ ہمارا راستہ الگ تمہارا الگ اگر تم لوگ اپنے کفر و تکذیب پر اڑے ہی رہے (المراغی۔ المنار) سو ان سے کہہ اب تمہاری مرضی میرا کام تو بس انذار وتبشیر اور تبلیغ حق ہے اور بس، اور وہ میں کرچکا۔ والحمد للہ۔ اور تمہارا کام یعنی تکذیب جو تم کر رہے ہو۔ کل عدل و انصاف کے اس یوم عظیم میں تم اپنے کئے کرائے کا بھگتان خود بھگت لوگے جبکہ تم سے کہا جائے گا۔ (هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ) اور (هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ ) سو یہ ارشاد ربانی ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (قُلْ كُلٌّ يَّعْمَلُ عَلٰي شَاكِلَتِهٖ ۭ فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِيْلًا) اور یہ ہٹ دھرمی کے لیے آخری جواب ہوتا ہے جو ان کو اس وقت دیا جاتا ہے جبکہ حق کو پوری طرح واضح کردیا جاتا ہے مگر وہ لوگ پھر بھی نہیں مانتے اور اس کا اصل مقصد اظہار بیزاری ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا کہ تم لوگ میرے عمل سے بری اور میں تمہارے عمل سے بری کہ جب تم لوگ حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے تو پھر اس اعلان برات کے سوا اور چارہ ہی کیا ہوسکتا ہے کہ پتھر پر جونک لگانا کسی کے بس میں نہیں ہوسکتا۔ سو ایسوں کے پیچھے لگنا بےکار اور ان پر محنت کرنا لاحاصل۔ والعیاذ باللہ من کل زیغ وضلال۔ 78 ۔ ہر کوئی اپنا ذمہ دار اور جواب دہ خود : سو ارشاد فرمایا گیا کہ نہ تم لوگ میرے کسی عمل کے جوابدہ و ذمہ دار ہو اور نہ میں تمہارے عمل کا جواب دہ اور ذمہ دار۔ بلکہ ہر کسی کو اپنے کیے کرائے کی جوابدہی خود کرنی ہے کہ آخرت کے اس یوم حساب میں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا۔ سو اس میں ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے لئے آخری جواب کی تلقین ہے کہ اگر تم لوگ نہیں مانتے ہو تو تمہاری مرضی۔ انجام کار نتیجہ تم خود دیکھ لو گے کہ ہر کسی کو اپنے ہی کیے کرائے کا صلہ اور بدلہ ملے گا۔ کسی کو دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا کہ آخرت کے اس جہاں میں ہر کسی کو اپنی ہی جوابدہی کرنی ہوگی۔ پس تم لوگ اپنے عمل کے ذمہ دار اور جواب دہ ہو اور میں اپنے عمل کا۔ تمہارا راستہ الگ اور میرا الگ۔ سو تم لوگ اپنے بارے میں اور اپنے مآل انجام سے متعلق خود دیکھ اور سوچ لو۔ میں تو تمہاری ہمدردی اور خیر خواہی کے لیے تم لوگوں کو اس راہ حق و ہدایت کی طرف بلاتا اور اس کی دعوت دیتا ہوں جس میں تمہارے لیے دنیا و آخرت کے دونوں جہانوں کا بھلا اور کامیابی ہے۔ مگر تم لوگ ہو کہ اس کو ماننے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے تو اس کا کیا کیا جائے اور اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے (ولکن لا تحبون الناصحین) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو عناد اور ہٹ دھرمی محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top