Tafseer-e-Madani - Yunus : 42
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُوْنَ اِلَیْكَ١ؕ اَفَاَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَ لَوْ كَانُوْا لَا یَعْقِلُوْنَ
وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّسْتَمِعُوْنَ : کان لگاتے ہیں اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَفَاَنْتَ : تو کیا تم تُسْمِعُ : سناؤگے الصُّمَّ : بہرے وَلَوْ : خواہ كَانُوْا لَا يَعْقِلُوْنَ : وہ عقل نہ رکھتے ہوں
اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو سنتے ہیں آپ کی طرف کان لگا کر، (مگر اپنی بدنیتی کی بناء پر وہ بہرے ہیں) تو کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں اگرچہ وہ کچھ سمجھتے بھی نہ ہوں ؟1
79 ۔ حضور ﷺ کے لیے تسلیہ و تسکین کا سامان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں اگرچہ وہ کچھ سمجھتے بھی نہ ہوں۔ اور استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی نہیں ایسے نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ان کے لیے افسوس کرنے کی کیا ضرورت ؟ سو اس میں آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی کا سامان ہے۔ کیونکہ آپ کو اپنی اس عظیم الشان رحمت و شفقت کی بناء پر جو کہ آپ کے قلب مبارک میں خلق خدا کے لیے موجود و موجزن تھی اور آپ کو ان لوگوں کے اس کفر وعناد پر جس سے وہ دعوت حق کے جواب میں کام لے رہے تھے سخت صدمہ اور افسوس ہوتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی اسی کتاب حکیم میں جابجا اور طرح طرح سے تسلی دیتے ہیں کہ آپ اس طرح ان لوگوں کے پیچھے اپنی جان کو ہلکان نہ کریں کہ آپ کا کام تو صرف تبلیغ حق ہے اور بس۔ آگے منوا لینا نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ ہی آپ کے ذمے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ( فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرٰتٍ ) (فاطر : 8) بہرکیف اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جب یہ لوگ اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کے باعث اور اپنی شامت اعمال کے نتیجے میں اندھے بہرے اور گونگے بن کر رہ گئے ہیں تو آپ ان کی محرومی پر افسوس نہ کریں کہ ایسے لوگ نور حق سے سرفرازی کے اہل نہیں رہے۔ سو قصور آپ کی تبلیغ کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا اپنا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top