Tafseer-e-Madani - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور اگر ہم دکھا دیں آپ کو (اے پیغمبر ! ) کچھ حصہ اس عذاب کا جس سے ہم ان لوگوں کو ڈرا رہے ہیں، یا اس سے پہلے ہی ہم اٹھا لیں آپ ﷺ کو تو (اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ) ان سب نے تو بہرحال لوٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے، پھر اللہ گواہ ہے ان تمام کاموں پر جو یہ لوگ کر رہے ہیں
85 ۔ یوم حساب کی تذکیر و یاد دہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخر ان سب نے لوٹ کر ہمارے ہی پاس آنا ہے اور بہرحال آنا ہے۔ پھر یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ اللہ گواہ ہے ان تمام کاموں کا جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ سو وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے کئے کرائے کا بدلہ بہرحال پانا ہے۔ اس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت ان کے لیے ممکن نہ ہوگی۔ تو پھر عمر رواں کی اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے، عذاب آخرت سے بچنے کی فکر اور کوشش کرنے کی بجائے الٹا عذاب کی جلدی مچانا، جیسا کہ یہ بےایمان لوگ کرتے ہیں، کس قدر حماقت اور کتنے بڑے خسارے کا سودا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ۔ سو آخرت اور اللہ کے حضور اپنی پیشی کو بھلا کر اور وہاں کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر جینا بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس ارشاد سے آگہی بخشی گئی کہ اگر ان بدبختوں پر عذاب کا کچھ حصہ آپ کی زندگی ہی میں آجائے یا آپ کی وفات کے بعد آئے تو اس سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں کہ ان پر عذاب نے بہرحال آکر رہنا ہے۔ اور انہوں نے اپنے کیے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے۔ یہ ہماری گرفت و پکڑ سے کبھی چھوٹ اور بچ نہیں سکتے کہ ان سب نے آخرکار لوٹ کر بہرحال ہمارے ہی پاس آنا ہے اور انہوں نے جو من گھڑت سفارشی اور خود ساختہ معبود اور کارساز اور حاجت روا و مشکل کشا بنا رکھے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کے کام آنے والا نہیں۔ اور وقت آنے پر یہ حقیقت ان کے سامنے خود پوری طرح آشکار ہوجائے گی کہ ان کے ایسے تمام سہارے محض اوہام اور خرافات تھے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top