Tafseer-e-Madani - Yunus : 53
وَ یَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ١ؔؕ قُلْ اِیْ وَ رَبِّیْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ١ؔؕۚ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ۠   ۧ
وَيَسْتَنْۢبِئُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں اَحَقٌّ : کیا سچ ہے ھُوَ : وہ قُلْ : آپ کہ دیں اِيْ : ہاں وَرَبِّيْٓ : میرے رب کی قسم اِنَّهٗ : بیشک وہ لَحَقٌّ : ضرور سچ وَمَآ : اور نہیں اَنْتُمْ : تم ہو بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنے والے
اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا واقعی یہ حق ہے ؟ تو کہو، ہاں قسم ہے میرے رب کی، یہ قطعی طور پر حق ہے، اور تم عاجز کردینے والے نہیں ہو،3
90 ۔ پیغمبر کی قوت ایمان و یقین کا ایک نمونہ و مظہر : یعنی ان سے کہو کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی یہ قطعی طور پر حق ہے۔ تاکید در تاکید کے ساتھ فرمایا گیا کہ ہاں یہ قطعی طور پر حق اور صدق ہے اور یہی شان امتیاز ہوتی ہے قوت ایمان و یقین کی ورنہ محض فلسفہ و منطق کے دلائل سے ایسی قوت یقین کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ فالحمد للہ الذی شرفنا بنور الایمان والیقین بمحض منہ وکرمہ وھو ارحم الراحمین۔ فزدنا اللہم ایمانا بک ویقینا وحبا فیما عندک۔ و وفقنا لما تحب وترضی من قول و عمل۔ بہرکیف اس سے پیغمبر کی قوت ایمان و یقین کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے۔ سو سوال کرنے والوں کے جواب میں صرف سادہ جواب پر ہی اکتفا نہیں فرمایا گیا بلکہ ادوات تاکید اور قسم کے ساتھ مؤکد کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ ہاں یہ قطعی طور پر حق اور سچ ہے اور اس نے اپنے وقت پر بہرحال آکر اور واقع ہو کر رہنا ہے۔ تب اس سے بچنے اور بھاگ نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ (وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ ) (ص :3) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 91: اللہ کی گرفت و پکڑ سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ والعیاذ باللہ : سو منکرین کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ عاجز کردینے والے نہیں ہو کہ اس عذاب کو نہ آنے دو اور اس کو روک دو ۔ یا اس سے نکل بھاگو۔ بلکہ تم پوری طرح اس کی گرفت اور اس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہو۔ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے تم کو عذاب میں دھر لے۔ اس لئے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اس عذاب کے لئے جلدی مچانے اور اس کی تکذیب و استہزاء کی بجائے اس سے بچنے کی فکر کرو جس میں خود تمہارا پنا بھلا ہے کہ اللہ کا عذاب آجانے کے بعد پھر کبھی نہیں ٹلتا (اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاۗءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (نوح :4) سو مجنون اور دیوانے وہ لوگ نہیں جو قطعی عذاب کے آنے سے پہلے اس سے خبردار کرتے ہیں تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے بلکہ مجنون اور دیوانے دراصل وہ لوگ ہیں جو ان کو جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اس ہولناک انجام کی طرف بڑھے جارہے ہیں جس سے گلو خلاصی کی پھر کوئی صورت ان کے لیے ممکن نہ ہوگی جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ مگر وہ اپنی بدبختی کی بناء پر اپنے اس جنون اور دیوانگی سے آگاہ نہیں اور اس طرح وہ مسلسل اور لگاتار اپنے اس انتہائی ہولناک انجام کی طرف بڑھے چلے جارہے ہیں جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top