Tafseer-e-Madani - Yunus : 55
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچ وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَھُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
آگاہ رہو (اے لوگو ! ) کہ قطعی طور پر اللہ ہی کے لئے ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے، یاد رکھو کہ اللہ کا وعدہ قطعی طور پر سچا ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں،1
94 ۔ کائنات میں جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی کے لیے ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ خلق و پیدائش کے اعتبار سے بھی اور ملکیت و مالکیت کے اعتبار سے بھی اور تصرف و حکومت کے لحاظ سے بھی کہ اس سارے کون و مکان اور کارخانہ ہست و بود کا خالق ومالک بھی تنہا وہی وحدہ لاشریک ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی ہے۔ پس نہ اس کی خلق و ایجاد میں کوئی اس کا شریک وسہیم ہے اور نہ اس کے حکم و تصرف میں۔ اس لئے وہ جو چاہے کرے۔ کسی کو جو سزا و جزاء چاہے دے نہ اس کے لیے کوئی بات مشکل ہے اور نہ کوئی رکاوٹ (وَاَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ) لیکن چونکہ وہ حکیم بھی ہے اس لیے اس کا ہر حکم و تصرف اور ہر امر و ارشاد حکمت کاملہ پر مبنی ہوتا ہے اور اس قدر اور اس حد تک کہ اس کا کوئی متبادل ممکن ہی نہیں اور اس قدر کہ اس کے خلاف ورزی باعث خرابی و فساد ہے اور اس کی مقرر فرمودہ حدود کی پابندی ہی میں صلاح و فلاح اور سب کا بھلا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر موقع پر اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ 95 ۔ اکثر لوگ جاہل۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید و تنبیہ کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ آگاہ رہو (اے لوگو) کہ اللہ کا وعدہ قطعی طور پر سچا ہے۔ لیکن حق اور حقیقت کو اور اپنے مآل انجام کو اور راہ حق و صواب اور فوز و فلاح کو اپنی غفلت اور کوتاہ نظری کے باعث سو نہ تو وہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اور نہ ہی حضرات انبیائے کرام۔ علیہم الصلوۃ والسلام کی بات کو مانتے ہیں۔ پس غفلت و لاپرواہی بیماریوں کی بیماری اور محرومی و شر و فساد کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ یہاں سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے کہ عوام کی اکثریت کی رائے حق و ہدایت کے فیصلہ کے لیے اساس اور معیار نہیں بن سکتی جیسا کہ مغربی جمہوریت کے پرستاروں کا کہنا اور ماننا ہے۔ اور جیسا کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے کہ عوام کی اکثریت ہمیشہ ان پڑھ، جاہل، فاسق و فاجر اور ایمان و یقین کی دولت سے محروم لوگوں ہی کی ہوگی۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی جہالت سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور نور علم و آگہی سے منور ومالا مال فرمائے۔ اور ہمیشہ راہ حق وصواب پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔ یا رب العالمین۔
Top