Tafseer-e-Madani - Yunus : 56
هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
ھُوَ : وہی يُحْيٖ : زندگی دیتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے وَاِلَيْهِ : اور اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹائے جاؤگے
وہی زندگی بخشتا ہے، اور اسی کی (صفت و) شان ہے موت دینا، اور اسی کی طرف لوٹایا جائے گا تم سب کو،
96 ۔ سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہی زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اسی کے حضور لوٹایا جائے گا تم سب کو اے لوگو ! تاکہ اس کے یہاں پہنچ کر تم اپنی زندگی بھر کے اپنے کئے کرائے کا بھرپور صلہ و بدلہ پاسکو۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے اپنی کامل اور آخری شکل میں پورے ہوسکیں۔ سو تم چاہو یا نہ چاہو، مانو یا نہ مانو، ایسے بہرحال ہو کر رہے گا۔ (تُرْجَعُوْنَ ) کے اس لفظ سے کئی اہم حقیقتیں واضح ہوجاتی ہیں۔ مثلا یہ کہ تم لوگ آئے اسی کے یہاں سے۔ اس لئے تم نے لوٹ کر جانا بھی اسی کے حضور ہے۔ کیونکہ رجوع کے معنی لوٹنے کے آتے ہیں۔ اور لوٹنا وہیں ہونا ہے۔ جہاں سے کوئی آیا ہو۔ دوسری اہم حقیقت یہ واضح ہوجاتی ہے کہ تم لوگ چاہو یا نہ چاہو تمہیں بہرحال لوٹ کر اس کے حضور پہنچنا ہے۔ کیونکہ یہاں (تُرْجَعُوْنَ ) مجہول کا صیغیہ استعمال ہوا ہے، اور تیسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح ہوجاتی ہے کہ تمہارے معاملات آج بھی اسی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔ اور ہوتا وہی ہے جو اس وحدہ لاشریک کو منظور ہوتا ہے اور کل بھی اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اور یہ اس لیے کہ یہاں (تُرْجَعُوْنَ ) کا صیغہ استعمال فرمایا گیا ہے جو کہ حال اور مستقبل دونوں کو شامل ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ تم لوگوں نے جواز خود مختلف ناموں سے طرح طرح کے شرکاء اور شفعاء اور سفارشی گھڑ رکھے ہیں ان میں سے کوئی بھی تمہیں کام نہیں آسکے گا کہ ان فرضی اور وہمی چیزوں کا نہ کوئی وجود ہے نہ ثبوت۔ پس تم سب نے لوٹ کر بہرحال اسی خالق ومالک کے حضور پہنچنا ہے جو کہ سب کا خالق اور مالک حقیقی ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ( وَرُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىھُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) (یونس :30) اللہ تعالیٰ اس روز کی سرخروئی سے نوازے۔ اور ہر موقع و مقام پر اپنی خاص رحمت عنایت کا معاملہ فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
Top