Tafseer-e-Madani - Yunus : 63
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ
الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَكَانُوْا : اور وہ رہے يَتَّقُوْنَ : تقویٰ کرتے رہے
وہ جو ایمان لائے اور وہ پرہیزگاری کو اپنائے رکھتے ہیں،3
108 ۔ اللہ کے ولی کون ہوتے ہیں ؟: سو اولیاء اللہ کی تعریف میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو ایمان رکھتے ہیں اور تقوٰی و پرہیزگاری اختیار کرتے ہیں۔ سبحان اللہ۔ اولیاء اللہ کی ایجاز و اختصار کے ساتھ کس قدر جامع و مانع تعریف فرمادی گئی اور صاف وصریح طور پر بتا اور بیان فرما دیا گیا کہ یہ وہ حضرات ہوتے ہیں جو ایمان و یقین اور تقوی و پرہیزگاری کی دولت سے سرشار ومالا مال ہوتے ہیں۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ پس اولیاء اللہ نہ تو کسی خاص قوم، قبیلہ، طائفہ گروہ اور نسل و خاندان کا نام ہوتا ہے اور نہ کسی خاص بناوٹ اور ظاہر داری کا۔ جیسا کہ ہمارے عرف اور معاشرے میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ جو بھی مومن صادق اپنے ایمان و عقیدہ میں اور اپنے تقوی و پرہیزگاری میں سچا اور راست باز ہوگا وہ اللہ پاک کی ولایت کے شرف سے مشرف و سرشار ہوگا۔ جیسا کہ فرمایا گیا (اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا) اور ایمان وتقوی میں وہ جس قدر بڑھتا اور ترقی کرتا جائے گا اسی قدر وہ درجات ولایت میں آگے بڑھتا اور ترقی کرتا چلا جائے گا سو یہ ہے سیدھا سادا مطلب و مفہوم ولایت اور اولیاء اللہ کا، جو کہ عقل و فطرت کے عین مطابق اور نصوص قرآن و سنت کے مفہوم و مدعا کا صریح و واضح مقتضی ہے اور اسی کی تائید و تصدیق حضرات انبیائے کرام۔ علیہم الصلوۃ والسلام۔ اور خاص کر امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان۔ اور ان کے تابعین اور اتباع تابعین کے اسوہ حسنہ سے بھی ہوتی ہے۔ سو ہمارے ملک و معاشرے میں ولایت اور اولیاء اللہ کے مفہوم و مدعا کے ساتھ جو غیر ضروری تصورات نتھی کردئیے گئے ہیں وہ تمام تر نتیجہ ہے دینی تعلیمات سے غفلت وبے خبری اور جہالت کا۔ اور اتباع ھوی اور خواہشات نفس کی پیروی وغیرہ دوسرے مختلف عوامل و اسباب کا۔ ورنہ اصل معاملہ بالکل واضح اور صاف ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل سوء وزیغ ومزلۃ وانحراف۔ وھو العزیز الوھاب۔
Top