Tafseer-e-Madani - Yunus : 74
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ رُسُلًا اِلٰى قَوْمِهِمْ فَجَآءُوْهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا كَانُوْا لِیُؤْمِنُوْا بِمَا كَذَّبُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ١ؕ كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجے مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد رُسُلًا : کئی رسول اِلٰى : طرف قَوْمِهِمْ : ان کی قوم فَجَآءُوْھُمْ : وہ آئے ان کے پاس بِالْبَيِّنٰتِ : روشن دلیلوں کے ساتھ فَمَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا : سو ان سے نہ ہوا کہ وہ ایمان لے آئیں بِمَا : اس پر جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِهٖ : اس کو مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَذٰلِكَ : اسی طرح نَطْبَعُ : ہم مہر لگاتے ہیں عَلٰي : پر قُلُوْبِ : دل (جمع) الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر نوح کے بعد ہم نے اور رسولوں کو بھی بھیجا ان کی قوموں کی طرف کھلے دلائل کے ساتھ، مگر جس چیز کو انہوں نے پہلے جھٹلا دیا تھا اسے انہوں نے مان کر نہ دیا اسی طرح ہم مہر لگا دیتے ہیں حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر،2
129 ۔ حد سے بڑھنا موجب ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم اسی طرح مہر لگا دیتے ہیں حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر۔ سو حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر قدرت کی طرف سے مہر جباریت لگا دی جاتی ہے۔ اور ہم مہر لگا دیتے ہیں۔ کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا نظام و قانون اور ہماری سنت اور دستور یہی ہے کہ ہم ایسے ضدی اور ہٹ دھرم لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں جو حدود بندگی سے تجاوز کرتے اور حق کو قبول کرنے کی بجائے اس کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ سو ان لوگوں کی یہ محرومی خود ان کے اپنے ہی کئے کرائے کا طبعی نتیجہ ہوتی ہے ورنہ ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا ہوتا۔ سو ایسے لوگوں نے اپنی اس بغاوت و سرکشی سے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے تھے (وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ ) سو اللہ وحدہ لاشریک کی آیتوں کی تکذیب اور ان کا انکار بڑا ظلم ہے جو ایسے منکر لوگ ڈھاتے ہیں مگر ان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اپنی روش سے ہم اپنا ہی نقصان کرتے اور اپنی ہی جانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ اور جو بیمار اپنی بیماری کو بھی اپنی صحت سمجھے اس کی بیماری کیسے دور ہوسکتی ہے اور اس سے بڑھ کر محروم اور بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top