Tafseer-e-Madani - Yunus : 75
ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى وَ هٰرُوْنَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
ثُمَّ : پھر بَعَثْنَا : ہم نے بھیجا مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد مُّوْسٰى : موسیٰ وَھٰرُوْنَ : اور ہارون اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اس کے سردار بِاٰيٰتِنَا : اپنی نشانیوں کے ساتھ فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ مُّجْرِمِيْنَ : گنہگار (جمع)
پھر ان کے بعد ہم نے بھیجا موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، اپنی نشانیوں کے ساتھ مگر انہوں نے اپنی بڑائی کے گھمنڈ سے کام لیا (پیغامِ حق کے مقابلے میں) اور وہ تھے ہی مجرم لوگ3
130 ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی بعثت کا ذکر وبیان۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھیجا فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔ یہاں پر بعثت پیغمبر کے سلسلہ میں فرعون اور اس کے سرداروں کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی قوم قبط کے بڑے اور ان کے اشراف اور کرتا دھرتا تھے اور انہی کے نقش قدم پر وہ لوگ چلتے تھے۔ ان کی اصلاح ان کے سب پیروکاروں کی اصلاح تھی۔ اور ان کی خرابی ان سب کی خرابی۔ اس لئے ذکر میں ان کی تخصیص فرمائی گئی ہے۔ ورنہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کی بعثت و تشریف آوری تو اس پوری قوم کے لئے تھی نہ کہ کچھ محدود و معدود لوگوں اور افراد کے لئے۔ مگر فرعون اور اس کے سرداروں کی تخصیص ان کی اسی خاص اہمیت کی بناء پر فرمائی گئی کہ حکمرانی ان ہی کی تھی۔ 131 ۔ استکبار باعث محرومی۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے پیغام حق و ہدایت کے مقابلے میں استکبار یعنی اپنی بڑائی کے گھمنڈ سے کام لیا۔ اور وہ تھے ہی مجرم لوگ۔ اس لیے وہ محروم کے محروم ہی رہے۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم اور گھمنڈ محرومی کا سب سے بڑا باعث اور بنیادی سبب ہے۔ والعیاذ باللہ۔ پس اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ اور وہ بھی حق کے مقابلے میں۔ والعیاذ باللہ۔ ایسی بری اور اتنی بڑی آفت ہے جو کہ انسان کو حق و ہدایت کے نور سے محروم کرکے اسے دائمی خسران و ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان پہلے انبیائے کرام کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھی فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے اپنی جھوٹی بڑائی کے زعم اور گھمنڈ میں ان سے منہ موڑ لیا۔ ان کی تکذیب کی اور ماننے کی بجائے ان کو جادو قرار دیا کہ وہ تھے ہی مجرم لوگ۔ اپنے جرم میں وہ بڑھتے ہی چلے گئے۔ یہاں تک کہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو استکبار اور معاصی وذنوب پر اصرار و استمرار باعث ہلاکت و تباہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top