Tafseer-e-Madani - Yunus : 93
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا : اور البتہ ہم نے ٹھکانہ دیا بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل مُبَوَّاَ : ٹھکانہ صِدْقٍ : اچھا وَّرَزَقْنٰھُمْ : اور ہم نے رزق دیا انہیں مِّنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں فَمَا اخْتَلَفُوْا : سو انہوں نے اختلاف نہ کیا حَتّٰى : یہاں تک کہ جَآءَھُمُ : آگیا ان کے پاس الْعِلْمُ : علم اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب يَقْضِيْ : فیصلہ کرے گا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت فِيْمَا : اس میں جو كَانُوْا : وہ تھے فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے
اور بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت عمدہ ٹھکانا دیا اور انھیں طرح طرح کی پاکیزہ چیزیں عطا کیں، پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گیا علم (حق اور حقیقت کا) یقیناً تمہارا رب (قطعی اور عملی طور پر) فیصلہ فرما دے گا ان کے درمیان ان تمام باتوں کا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے تھے،2
158 ۔ بنی اسرائیل کے لیے عمدہ ٹھکانے کی فراہمی : سو ارشاد فرمایا گیا اور بلاشبہ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت عمدہ ٹھکانہ دیا۔ یعنی بلاد شام و فلسطین میں جو کہ نبیوں، پیغمبروں کی سر زمین ہے۔ اور جیسے قرآن حکیم میں ارض مقدس اور ارض مبارکہ فرمایا گیا ہے۔ جو کہ اپنی ظاہری و باطنی اور حسی و معنوی خیرات و برکات کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے اور جس کو شہد اور دودھ کی سر زمین " ارض العسل والحلیب " کہا جاتا ہے جبکہ بعض حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ارض شام و مصر ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد ارض مصر بھی ان حضرات کی زیر نگین آگئی تھی۔ (المراغی وغیرہ) ۔ والعلم عنداللہ تعالیٰ ۔ سو اس میں بنی اسرائیل پر کیے گئے ایک عظیم الشان انعام و احسان کا ذکر ہے کہ صدیوں تک غلامی کی زنجیروں میں بندھی جکڑی اور ظلم و زیادتی کی چکی میں پسنے والی اس قوم کو ہم نے آزادی کی نعمت سے سرشار کرکے ایسی سرزمین کا وارث بنایا لیکن اس ناشکری قوم نے کفران نعمت ہی سے کام لیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ کفران نعمت کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ اپنی رضا اور خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 159 ۔ بنی اسرائیل کے لیے پاکیزہ چیزوں سے روزی کا انتظام : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان کے لیے عمدہ روزی کا انتظام کیا اور ان کو طرح طرح کی پاکیزہ چیزیں عطا کیں۔ چناچہ وادی تیہ میں ان کے لیے آسمان سے من وسلوی اتارا۔ لق و دق صحرا میں ان کے لیے پانی کے چشمے جاری کردئیے۔ وہاں کی چلچلاتی دھوپ میں ان پر بادلوں کے سائے کردیئے اور اس کے بعد ارض فلسطین میں جس کو ان کی کتابوں میں " دودھ اور شہد کی سرزمین " کہا گیا ہے اس میں ان کو ٹھکانا دیا۔ ان کے لیے طرح طرح کے غلے پیدا کئے اور پیداواریں اگائیں اور ان کی خشکی و تری کی قسما قسم کی نعمتوں سے نوازا مگر اس ناشکری قوم کے اطوار پھر بھی درست نہ ہوئے بلکہ یہ لوگ ٹیڑھے کے ٹیڑھے ہی رہے جس کا خمیازہ انہیں دنیاوی ذلت و خواری اور اخروی عذاب کی شکل میں بھگتنا پڑا۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے کفران نعمت کا۔ اور اس طرح وہ نعمتیں نقمت اور وبال بن جاتی ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو شکر نعمت باعث خیر و برکت اور سرفرازی مزید کا ذریعہ و وسیلہ ہے جبکہ کفران نعمت موجب ہلاکت و خسران۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ شکر نعمت کی توفیق بخشے اور کفران نعمت کے ہر شائبے سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 160 ۔ بنی اسرائیل کا اختلاف نور علم سے سرفرازی کے بعد : سو ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے اختلاف نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ پہنچ گیا ان کے پاس علم، یعنی علم وحی کہ علم درحقیقت وہی ہے جو وحی کے ذریعے میسر آئے۔ پس اس عظیم الشان روشنی سے مشرف و سرفراز ہونے کے بعد اصلاح پانے کی بجائے یہ لوگ اور بگڑ گئے۔ سو یہی حال ہوتا ہے ان بدبختوں کا جن کی نیتیں بری، ارادے فاسد اور مزاج خراب ہوچکے ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس ان کا اختلاف جہالت اور لاعلمی کی بناء پر نہیں تھا بلکہ دیدہ و دانستہ اور نور علم کے آجانے کے بعد ہے۔ اور یہ جانتے بوجھتے حق کی مخالفت کرتے ہیں جس سے ان کا جرم اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔ سو یہ وہ بدبخت قوم ہے جس نے رات کے اندھیرے میں نہیں دن کے اجالے میں ٹھوکر کھائی۔ اور گہرے کھڈے کو دیکھنے کے باوجود اس میں چھلانگ لگائی، جس سے ان کا جرم ڈبل اور مزید سنگین ہوجاتا ہے۔ اس لیے ان کے انجام بد کی ذمہ داری خود انہی کے کندھوں پر ہے۔ اور اس کا خمیازہ ان کو بھگتنا ہوگا۔ 161 ۔ اصل اور آخری فیصلہ قیامت ہی کے روز : سو ارشاد فرمایا گیا کہ قیامت کے روز تمہارا رب ان کے درمیان فیصلہ فرمادے گا۔ یعنی عملی اور آخری طور پر کہ اس روز وہ اہل حق کو جزا خیر سے نوازے گا اور اہل باطل کو جزا شر سے۔ ورنہ علمی طور پر فیصلہ تو ہدایت وحی کے ذریعے اسی دنیا میں فرما دیا گیا لیکن عملی اور آخری طور پر ان کا فیصلہ آخرت کے اس یوم حساب ہی میں ہوگا جو کہ فیصلے کا دن ہوگا اور جس میں ہر کسی کو اپنی زندگی بھر کے کیے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پورا صلہ اور بدلہ پانا ہوگا تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے اپنی اصلی اور آخری شکل میں پورے ہوسکیں۔ اور اس کائنات کے مقصد تخلیق کی تکمیل ہوسکے۔ ورنہ یہ سارا کارخانہ ہست و بود عبث اور بےمقصد قرار پائے گا جو کہ اس کے خالق حکیم کی حکمت بےپایاں کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اللہ کے دین کے بارے میں ان لوگوں نے جو دھاندلی مچائی ہے اور کتاب الہی کی جن حقیقتوں پر انہوں نے پردہ ڈالا ہے ان سب باتوں اور تمام اختلافات کا آخری اور عملی فیصلہ قیامت کے اس یوم فصل وتمیز میں ہوگا جو کہ اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے مقرر فرما رکھا ہے جس روز ان کا سب کچا چٹھا ان کے سامنے آجائے گا۔ اس روز ہر کوئی اپنے کیے کرائے کا پھل پائے گا اور ہر کوئی اپنے جرم و قصور کے مطابق اپنے کیفر کردار کو پہنچ کر رہے گا۔ اس دنیا میں آخری فیصلہ نہ ہوگا نہ ہونا ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دن کی رسوائی سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Top