Tafseer-e-Madani - Yunus : 94
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَۙ
فَاِنْ : پس اگر كُنْتَ : تو ہے فِيْ شَكٍّ : میں شک میں مِّمَّآ : اس سے جو اَنْزَلْنَآ : ہم نے اتارا اِلَيْكَ : تیری طرف فَسْئَلِ : تو پوچھ لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَقْرَءُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتٰبَ : کتاب مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے لَقَدْ جَآءَكَ : تحقیق آگیا تیرے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : پس نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
سو اگر آپ کو کوئی شک (وشبہ) ہو اس (وحی و کتاب) کے بارے میں جس کو ہم نے اتارا ہے آپ کی طرف، تو آپ پوچھ لیں ان لوگوں سے جو کتاب پڑھتے ہیں آپ سے پہلے بلاشبہ آچکا آپ کے پاس حق آپ کے رب کی طرف سے، پس آپ کبھی شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا،
162 ۔ خطاب پیغمبر سے اور عتاب مکذبین پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر آپ کو اے پیغمبر اس وحی و کتاب کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہو جس کو ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں۔ سو اس ارشاد میں خطاب اگرچہ بظاہر آنحضرت ﷺ سے ہے لیکن سنانا دراصل دوسروں کو ہے اور یہ بلاغت کا ایک خاص اسلوب ہے کہ خطاب کسی سے ہو اور سنانا کسی اور کو مطلوب ہو۔ پس یہاں پر خطاب اگرچہ بظاہر حضرت رسالت مآب ﷺ سے ہے کہ وحی کے اولین اور اصل مخاطب تو بہرحال آپ ﷺ ہی ہیں مگر سنانا درحقیقت دوسروں کو ہے۔ اور یہ بلاغت کا ایک خاص اور مشہور و معروف اسلوب ہے اور اس طرز خطاب اور اسلوب بیان میں جو قوت اور زور ہے وہ اس کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ ورنہ آنحضرت ﷺ کو کوئی شک تھا ہی نہیں۔ چناچہ حضرت قتادہ ؓ اور ابن عباس ؓ وغیرہ سے مروی ہے کہ اس آیت کریمہ کے نزول پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں نے نہ تو لمحہ بھر کے لیے کبھی کوئی شک کیا ہے اور نہ ہی میں کسی سے پوچھتا ہوں۔ (جامع البیان، روح، القرطبی، المراغی، المحاسن، وغیرہ) سو یہ اسلوب ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے سے کہے کہ " اگر تم میرے بیٹے ہو تو بہادر بنو "۔ ان انت ابنی فکن شجاعا " یا جیسے کوئی کہے کہ " اگر پانچ کا عدد جفت ہے تو دو مساوی حصوں پر تقسیم ہوجائے گا۔ " ان کانت الخمسۃ زوجا فینقسم بین اثنین " سو اس انداز میں بات بطور فرض کہی جاتی ہے جس سے معنی کے اندر ایک خاص زور اور قوت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ ظاہر اور واضح ہے۔ ورنہ ایسا کہنے والے شخص کو نہ تو اپنے بیٹے کے بیٹا ہونے میں کوئی شک ہوتا ہے اور نہ پانچ کے طاق ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک ہوسکتا ہے۔ سو یہ خاص انداز و زور بیان و بلاغت کلام کا ایک مشہور و معروف اسلوب ہے۔
Top