Tafseer-e-Madani - Yunus : 97
وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ
وَلَوْ : خواہ جَآءَتْھُمْ : آجائے ان کے پاس كُلُّ اٰيَةٍ : ہر نشانی حَتّٰى : یہانتک کہ يَرَوُا : وہ دیکھ لیں الْعَذَابَ : عذاب الْاَلِيْمَ : دردناک
اگرچہ ان کے پاس آجائے ہر نشانی یہاں تک کہ وہ دیکھ لیں اس بڑے دردناک عذاب کو
165 ۔ ہٹ دھرموں نے کبھی ایمان نہیں لانا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے ہٹ دھرم لوگ کبھی ایمان نہیں لائیں گے اگرچہ ان کے پاس ہر نشانی بھی آجائے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے دلوں پر ایسی مہر لگ جاتی ہے کہ وہ حق اور ہدایت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو بات صرف معجزہ اور نشانی کی نہیں بلکہ اصل مدار طلب صادق اور آمادگی قبولیت پر ہے۔ اس کے بغیر اگر وہ ہر نشانی دیکھ لیں تو کبھی انہوں نے ایمان نہیں لانا۔ سو عناد اور ہٹ دھرمی محرومی کی جڑ اور بنیاد ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو انسان کے بناؤ بگاڑ اور اس کی صحت و فساد کا اصل دارومدار اس کے اپنے قلب و باطن پر ہے۔ اگر اس کی نیت درست اور ارادہ صحیح ہو اور اس کے اندر طلب صادق کا جذبہ پایا جاتا ہو تو اس کے لیے حضرت واہب مطلق۔ جل شانہ۔ کی طرف سے عنایات ہی عنایات اور نوازشیں ہی نوازشیں ہیں۔ لیکن اس کے برعکس اگر وہ عناد اور ہٹ دھرمی سے کام لے تو پھر اس کے لیے محرومی کے سوا کچھ نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین۔ 166 ۔ اعتبار ایمان بالغیب کا ہے نہ کہ ایمان بالشہود و المشاہدہ کا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک کہ دیکھ لیں اس دردناک عذاب کو جس کے یہ مستحق ہوچکے ہیں سو اس وقت ایسے لوگ ایمان تو لائیں گے اور چیخ چیخ کر اپنے ایمان لانے کا اعلان کریں گے مگر اس وقت کا ان کا وہ ایمان معتبر نہیں ہوگا کہ اضطرار اور مجبوری کا ایمان معتبر نہیں ہوتا کہ وہ ایمان بالمشاہدہ ہوتا ہے۔ جبکہ معتبر اور مطلوب وہ اختیاری ایمان ہے جو کہ بالغیب اور بن دیکھے ہو۔ جس کو ایمان بالغیب کہا جاتا ہے اور جو حضرات انبیائے کرام کی دعوت و تبلیغ کے مطابق لایا جاتا ہے۔ سو اس میں بھی اصل میں ہٹ دھرموں کی ضد وعناد اور ان کی ہٹ دھرمی کے نتیجہ و انجام کو بیان فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اب بہرحال ایمان نہیں لانا۔ یہاں تک کہ یہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس وقت یہ لوگ ایمان لائیں گے اور چیخ چیخ کر ایمان لائیں گے مگر اس وقت کے اس ایمان کا ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ وہ مجبوری اور اضطرار کا ایمان ہوگا جو کہ نہ مطلوب ہے اور نہ ہی مفید۔ (وَاَنّٰى لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ) یعنی ان کے لیے اس دولت کو پانا کس طرح ممکن ہے اتنی دور جگہ سے ؟ پس اصل مطلوب و مفید وہ ایمان بالغیب ہے جو بن دیکھے اور اپنے ارادہ و اختیار سے ہو۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔
Top