Tafseer-e-Madani - Yunus : 99
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِیْعًا١ؕ اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّٰى یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ : چاہتا رَبُّكَ : تیرا رب لَاٰمَنَ : البتہ ایمان لے آتے مَنْ : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں كُلُّھُمْ جَمِيْعًا : وہ سب کے سب اَفَاَنْتَ : پس کیا تو تُكْرِهُ : مجبور کریگا النَّاسَ : لوگ حَتّٰى : یہانتک کہ يَكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور اگر تمہارا رب چاہتا تو جتنے بھی لوگ روئے زمین پر آباد ہیں وہ سب کے سب ایمان لے آتے ایک ساتھ، تو کیا آپ مجبور کریں گے لوگوں کو کہ وہ مسلمان ہوجائیں ؟2
168 ۔ جبری ایمان نہ مطلوب ہے نہ مفید : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تمہارا رب چاہتا تو روئے زمین کے سب لوگ ایمان لے آتے۔ سو اگر سب کو بالجبر مسلمان بنانا مقصود ہوتا تو یہ کام اس قادر مطلق کے لیے کچھ مشکل نہ تھا بلکہ اس کے لیے محض ایک اشارہ ہی کافی تھا۔ اور اس کے لیے محض ارادہ خداوندی کی دیر تھی۔ مگر ایسا ایمان تو مطلوب و مقصود ہی نہیں۔ بلکہ مقصود و مطلوب تو وہ ایمان ہے جو انسان کی اپنی مرضی و اختیار سے ہو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ (اِنْ نَّشَاْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ اٰيَةً فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ ) (الشعراء :4) یعنی " اگر ہم ایسا ایمان چاہتے تو اس کے لیے آسمان سے ایک نشانی اتار دیتے جس کے آگے ان سب کی گردنیں بلا اختیار جھک جاتیں " لیکن ایسا جبری ایمان تو سرے سے مطلوب ہی نہیں۔ سو جب اس قادر مطلق کے حکم و ارشاد اور اس کی مشیت و ارادہ سے آسمان و زمین اور سورج و چاند کے یہ عظیم کرے بلا کسی چون و چرا کے لگاتار مصروف سفر اور محو گردش ہیں۔ اور لمحہ بھر کے لیے آگے پیچھے نہیں ہوتے۔ تو پھر چند فٹ کے اس انسان کی کیا مجال تھی کہ یہ اس کے حکم و ارشاد سے ذرہ برابر کوئی سرتابی کرسکتا ؟ لیکن ایسا جبری ایمان تو سرے سے مطلوب ہی نہیں۔ ورنہ پھر ثواب و عقاب کے کیا معنی ہوتے اور جنت و دوزخ کا استحقاق کس بناء پر ہوتا ؟ مطلوب و مفید وہ ایمان بالغیب ہے جو انسان اپنے ارادہ و اختیار سے لائے اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضاء کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 169 ۔ پیغمبر کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان : سو ارشاد فرمایا گیا تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ سب ایمان لے آئیں ؟ اپنی انتہائی درجے کی ہمدردی اور غایت حرص کی بناء پر۔ اور استفہام یہاں پر انکاری ہے۔ یعنی آپ ایسا نہ کریں کہ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں فرمایا گیا (لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) (البقرۃ نمبر 272) بلکہ آپ کا اصل کام ہے پیغام حق پہنچا دینا اور بس۔ اور وہ آپ نے پہنچا دیا۔ بس آپ کا فرض پورا ہوگیا۔ باقی آگے ان سے نمٹنا اور حساب لینا سو وہ ہمارا کام ہے۔ ان علیک الا البلاغ وعلینا الحساب۔ سو اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ آپ کا کام منوانا نہیں بلکہ کلمہ حق کی تبلیغ اور تعلیم و تلقین ہے اور بس۔ اور وہ آپ کرچکے۔ اب آپ کا ذمہ فارغ۔ دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لیے تنبیہ و تہدید ہے کہ اب آگے خدا کے یہاں پرسش خود تمہاری ہونی ہے اور اپنے کیے کرائے کے ذمہ دار تم خود ہو۔ اب تم لوگ اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لو کہ تم کہاں کھڑے ہو اور کس نتیجہ و انجام کے مستحق ہو ؟ اور اپنی اصلاح کرلو قبل اس سے کہ فرصت عمل تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تمہیں ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہونا پڑے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top