(3) اس اخلاقی بگاڑ کے اصل سبب کی نشاندہی : سو اس سے اس امر کو واضح فرما دیا گیا کہ اخلاقی بگاڑ کا اصل سبب حب دنیا اور کبر و غرور ہے، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ جوڑ جوڑ کر رکھتا ہے اپنے مال کو کہ اس چیز کو اس نے مقصد حیات بنا رکھا ہے، اور مال و دولت کو جوڑنے و جمع کرنے ہی کو اس نے سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ اور اپنی اسی مالداری اور دولتمندی کی بنا پر وہ تکبر میں مبتلا ہوتا ہے، اور دوسروں کی تحقیر کرتا اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا، اور کسی ناصح کی نصیحت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اور حقوق کی یاد دہانی اور نصیحت کرنے والوں کو وہ " ھمز " اور " لمز " کے حربوں سے چپ کرانے کی کوشش کرتا ہے، یعنی بجائے اس کے کہ اس کی نصیحت کی بات کو اپنا کر وہ اپنی اصلاح کرے وہ الٹا ایسے ناصحین مخلصین ہی کا مذاق اڑاتا ہے اور ان پر آوازے کستا ہے، اور اس طرح اپنی وہ محرومی اور سیاہ بختی میں اضافے کا سامان کرتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا شخص مال جوڑتا، جمع کرتا اور ان کو گن گن کر رکھتا ہے، یعنی اپنے بخل اور ہوس سیم و زر کی بنا پر، والعیاذ باللہ العظیم۔ سو حریص اور بخیل مالداروں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ مال جمع کرنے اور سینت سینت کر رکھنے ہی میں مشغول رہتے ہیں، اور ان کے دل و دماغ ہمیشہ سرمایہ کے حساب و کتاب اور جمع و خرچ میں لگے رہتے ہیں، کس کا روبار میں کتنا منافع ہوا، گزشتہ سال کتنا ہوا تھا، اور اس سال کتنا اور آئندہ کے لیے کیا امکانات اور چانسز ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ فلاں ملک اور فلاں شہر میں کس چیز کی کھپت اور ضرورت زیادہ ہے، اور فلاں جگہ کون سا کاروبار زیادہ برگ و بار لاسکتا ہے۔ انہی گورکھ دھندوں میں الجھ کر ایسا شخص حق کی بات سننے اور ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا اور یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں وہ مکارم اخلاق کی دولت سے بھی محروم ہوجاتا ہے، سو زر پرستی کا روگ بیماریوں کی بیماری ہے، والعیاذ باللہ۔ سو اس سے دنیا دار شخص کے باطن کی کیفیت کا اظہار وبیان فرما دیا گیا ہے کہ ایسا شخص مال و دنیا کو ہمیشگی کا ذریعہ سمجھتا ہے، جیسا کہ اس کے عمل اور اس کے رویہ سے ظاہر وعیاں ہوتا ہے کہ وہ اسی کے لیے جیتا اور اسی کے لیے مرتا ہے، والعیاذ باللہ۔ بہرکیف اس سے دنیا دار کے باطن کی کیفیت کو آشکارا فرما دیا گیا، جس کا عکس ان کے اس انہماک سے ظاہر ہوتا ہے جس کا مظاہرہ ایسے لوگ دنیاوی مال و دولت کے حصول کے لیے کرتے ہیں، وہ اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور دن رات اسی کے جوڑنے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور یہاں تک کہ اس کے لیے حلال و حرام کی تمیز بھی مٹا دیتے ہیں۔ سو انسان کے باطن کا سراغ دینے والی اصل چیز اس کی زبان نہیں بلکہ اس کا وہ رویہ ہے جس کا اظہار وہ اپنے عمل و کردار سے کرتا ہے۔ ایک دنیا دار شخص جو اس دنیا کو اپنی منزل سمجھتا ہے اس کا حال اس شخص سے یکسر مختلف ہوتا ہے جو دنیا کو اصل منزل نہیں بلکہ اس کا ایک پڑاؤ سمجھتا ہے، سو ہوس زر بیماریوں کی بیماری ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا شخص یوں سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ رکھے گا، اور اس کی موت و فنا سے کبھی واسطہ و سابقہ نہیں پڑے گا، اور دوسرا ترجمہ و مطلب اس ارشاد ربانی کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، آیت کریمہ کے کلمات کریمہ میں ان دونوں ہی ترجموں اور مفہوموں کی گنجائش موجود ہے، اور یہ دونوں ہی صحیح ہیں، اور مآل و مدعا دونوں کا بہرحال ایک ہی ہے کہ دنیا پرست انسان کی نظر میں یہ دنیا ہی سب کچھ ہے، اور اس کے عمل اور رویے سے یوں ہی لگتا ہے، اور وہ یونہی سمجھتا ہے کہ اس کا مال و دولت سے اس کو ہمیشہ کی زندگی مل جائے گی اور یہ کہ یہ مال و دولت اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، سو یہ اس کی بڑی بھول اور غلط فہمی ہے، نہ یہ مال اس کے پاس ہمیشہ رہے گا، اور نہ اس نے یہاں ہمیشہ رہنا ہے، بلکہ یہ سب کچھ فانی اور ایک ضل زائل ہے، پس جو لوگ دنیا کے مال و دولت ہی کو اصل مقصود سمجھ کر اسی کے لیے جیتے اور مرتے ہیں وہ بڑے ہی سخت اور انتہائی ہولناک خسارے میں پڑے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین و یا ارحم الرحمین، واکرم الاکرمین، بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن، فی الحیاۃ، جل وعلا۔