Tafseer-e-Madani - Hud : 114
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ١ؕ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ ذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَۚ
وَاَقِمِ : اور قائم رکھو الصَّلٰوةَ : نماز طَرَفَيِ : دونوں طرف النَّهَارِ : دن وَزُلَفًا : کچھ حصہ مِّنَ : سے (کے) الَّيْلِ : رات اِنَّ : بیشک الْحَسَنٰتِ : نیکیاں يُذْهِبْنَ : مٹا دیتی ہیں السَّيِّاٰتِ : برائیاں ذٰلِكَ : یہ ذِكْرٰي : نصیحت لِلذّٰكِرِيْنَ : نصیحت ماننے والوں کے لیے
اور قائم رکھو تم نماز کو، دن کے دونوں سروں پر بھی، اور رات کے کچھ حصوں میں بھی، بیشک نیکیاں لے جاتی ہیں برائیوں کو، یہ ایک بڑی نصیحت ہے ماننے والوں کے لئے،
220 ۔ نماز قائم کرنے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور نماز قائم رکھو تم نماز کو دن کے دونوں سروں پر۔ یعنی صبح و شام۔ اس میں فجر، ظہر اور عصر کی تین نمازیں آگئیں۔ سو اقامت صلوۃ دین حنیف کا ایک اہم حکم و ارشاد اور بنیادی مطالبہ ہے۔ اور اسی سے انسان اپنے رب کی رضا اور اس کی نصرت و امداد اور اعانت سے سرفراز ہوتا اور مشکلات پر قابو پاتا ہے۔ سو اس ارشاد سے صبر و استقامت کے حصول کی تدبیر بیان فرمائی گئی اور قرآن حکیم میں اس حقیقت کو جگہ جگہ اور طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے کہ راہ حق میں شیطان اور اس کے اعوان و انصار کی طرف سے پیش آنے والی مشکلات اور مزاحمتوں کے لیے روحانی قوت کے حصول اور اس سے سرفرازی کا ذریعہ نماز ہی ہے۔ یہی چیز بندے کو خدا سے جوڑتی ہے اور جب خدا سے جڑ جاتا ہے تو اس پر خداوند قدوس کی طرف سے انوار و برکت کا فیضان ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کا دل وسوسوں اور کمزوریوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جو پورے عزم اور حوصلے کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ 221 ۔ رات کو بھی نماز قائم کرنے کا حکم و ارشاد : سو ارشاد فرمایا گیا اور رات کے کچھ حصوں میں بھی۔ سو اس میں مغرب و عشاء کی نمازیں آگئیں۔ سو اس طرح اشارتًا یہاں پر پانچوں نمازوں کا ذکر ہوگیا اور اس طرح اجمالی طور پر پانچوں نمازوں کا ذکر تو قرآن حکیم میں کئی جگہ فرمایا گیا ہے مگر ان کی تفاصیل دوسرے تمام ارکان اسلام کی طرح احادیث نبویہ کے ذخیرہ مقدسہ ہی سے مل سکتی ہیں۔ پس یہ امر حجیت حدیث کی ایک بڑی اہم اور قطعی دلیل ہے کہ حدیث کے بغیر قرآن حکیم کے مفاہیم و مطالب کو صحیح طور پر سمجھنا اور ان کی مراد کو متعین کرنا اور قرآنی احکام پر صحیح طریقے سے اور پورے طور پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔ اسی لئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے قرآن پاک آپ کی طرف اے پیغمبر اسی لیے اتارا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی مراد کھول کر بیان فرمائیں۔ چناچہ ارشاد ربانی ہے (وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ للنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ) (النحل : 44) سو حدیث رسول دین حنیف کا قرآن حکیم کے بعد دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ اس کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہی نہیں۔ اور اس کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو نماز ایک عظیم الشان عبادت اور خداوند قدوس کی رحمتوں، عنایتوں اور برکتوں سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 222 ۔ نیکیاں تزکیہ و تطہیر کا ایک عظیم الشان ذریعہ و وسیلہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور " ان " کی تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک نیکیاں لے جاتی ہیں برائیوں کو۔ کہ نیکیوں سے اصلاح اور تزکیہ نفس کی جو سعادت اور جلا انسان کو نصیب ہوتی ہے اس سے برائیوں کے اثرات مٹ جاتے ہیں۔ اور ان کی میل دور ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ مسند امام احمد اور سنن ترمذی وغیرہ کی حدیث میں فرمایا گیا ہے (اتبع السیئۃ الحسنۃ تمحھا) کہ " برائی اگر ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلیا کرو تاکہ وہ اس کے اثرات بد کو مٹا دے " مگر واضح رہے کہ یہاں " سیئات " سے مراد صغائر ہیں کہ کبیرہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی حدیث میں اس کی تصریح موجود ہے۔ چناچہ صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ میں نے مدینے کے دور کے کنارے پر ایک عورت سے چھیڑ خانی کی۔ بغیر اس کے کہ اس سے بدکاری کا ارتکاب کرتا۔ سو اب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، اس جرم کی جو سزا بنتی ہے وہ مجھ پر جاری کیجئے۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے جو کہ وہاں موجود تھے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر پردہ ڈالا ہوا تھا، تو کاش کے تو اس پردہ کو ایسے ہی رہنے دیتا۔ مگر آنحضرت ﷺ نے اس کو کچھ نہیں فرمایا یہاں تک کہ وہ شخص اٹھ کر چلا گیا۔ تو آپ نے اس کو واپس بلوایا اور پھر یہی آیت کریمہ اس کو پڑھ کر سنائی۔ اس پر حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول کیا یہ خاص اسی شخص کے لیے ہے ؟ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں۔ بلکہ سب لوگوں کے لیے عام ہے (بخاری، مختصرا کتاب التفسیر، مسلم کتاب التوبہ) سبحان اللہ۔ کیا کہنے رب غفور و رحیم کی شان رحمت و بخشش اور کرم و عنایت کے۔ اور کیا کہنے نبی رحمت کی پیش فرمودہ ان تعلیمات مقدسہ کی عنایتوں اور فیض رسانیوں کے۔ اور کیا کہنے حضرات صحابہ کرام کے نفوس قدسیہ کی عظمتوں اور ان کی پاک دامنیوں کے کہ کس طرح ایک شخص بغیر کسی کے دعوی کے اور بغیر کسی گواہ اور ثبوت کے، جرم کی سزا کے لیے فورا اور از خود اپنے آپ کو بارگاہ نبوت کی عدالت عالیہ میں پیش کرکے سزا کی درخواست کرتا ہے اور پھر بارگاہ رسالت سے اس کو اور اس کے واسطے سے پوری امت کے لیے یہ خوشخبری ملتی ہے کہ اس طرح کے چھوٹے موٹے گناہ نماز روزہ وغیرہ اعمال صالحہ سے ازخود معاف ہوجاتے ہیں۔ فالحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی نبیہ المصطفی الامین وعلی الہ الطیبین الطاہرین ومن اھتدی بھدیہ ودعا بدعوتہ الی یوم الدین۔ ورضی عنہم وعنا معہم اجمعین۔ وھو ارحم الراحمین واکرم الاکرمین۔ سو حسنات یعنی نیکیوں کی تکثیر کی فکر و کوشش کرو تاکہ شبہات کی صفائی ہوتی رہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید جل وعلا شانہ۔
Top