Tafseer-e-Madani - Hud : 119
اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ١ؕ وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ١ؕ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس رَّحِمَ : رحم کیا رَبُّكَ : تیرا رب وَلِذٰلِكَ : اور اسی لیے خَلَقَهُمْ : پیدا کیا انہیں وَتَمَّتْ : اور پوری ہوئی كَلِمَةُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب لَاَمْلَئَنَّ : البتہ بھردوں گا جَهَنَّمَ : جہنم مِنَ : سے الْجِنَّةِ : جن (جمع) وَالنَّاسِ : اور انسان اَجْمَعِيْنَ : اکٹھے
مگر جن پر رحم فرما دے تمہارا رب (کہ وہی بےراہ روی سے بچ سکیں گے) اور اللہ نے تو ان کو پیدا ہی اسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لئے کیا ہے، اور پوری ہوگئی ہوگی تمہارے رب کی یہ بات کہ میں ضرور بالضرور بھر کے رہوں گا دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے،3
228 ۔ اصل مدار انسان کے اپنے قلب و باطن پر ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ ہمیشہ اسی اختلاف میں پڑے رہیں گے مگر جن پر تمہارا رب رحم فرما دے۔ بس وہی بچ سکیں گے اس طرح کی بےراہ روی سے۔ اور رب کی رحمت و عنایت کا مدارو انحصار انسان کے قلب و باطن پر ہوتا ہے۔ سو اس سے یہ اہم حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صفائے باطن اور طلب صادق اصلاح احوال کی اولین اساس اور بنیادی شرط ہے۔ اور اس کی توفیق اسی خوش نصیب ہی کو ملتی ہے جس کے دل کی دنیا درست ہو اور وہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی چاہتا ہو کہ اس علام الغیوب کے یہاں کے فیصلے دلوں کی نیتوں اور قلبی ارادوں ہی پر مرتب ہوتے ہیں نہ کہ محض ظاہر داریوں پر۔ پس انسان کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے دل کا تعلق اس کے خالق ومالک سے درست ہو اور اس کی نیت و ارادہ کا معاملہ صحیح ہو۔ اللہ توفیق فرمائے۔ آمین۔ فانہ ھو الموفق لکل خیر والمیسر لکل عسیر۔ بہرکیف باطن کی صفائی اور نیت و ارادہ کی درستی اور طلب صادق اصلاح احوال کی اولین اساس اور اہم بنیاد ہے۔ اسی پر حضرت واہب مطلق۔ جل وعلا شانہ کی عنایات متوجہ ہوتی ہیں کہ وہ علام الغیوب انسان کے ظاہر اور اس کے باطن کو پورا اور برابر جانتا ہے اس سے کسی کی کوئی کیفیت مخفی نہیں رہ سکتی، اس لیے اس کے ساتھ اپنے قلب و باطن کا معاملہ صحیح رکھنے کی ضرورت ہے۔ 229 ۔ منکرین و معاندین قانون قدرت کی زد میں۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا اور پوری ہوگئی تمہارے رب کی بات یعنی وہ بات جو اس کی قضا و قدر، علم محیط اور حکمت بالغہ کی بناء پر طے ہوچکی ہے کہ حق و ہدایت کی دولت سے سرفرازی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اس کے لیے اپنے اندر طلب صادق رکھتے ہوں۔ اور جو طلب صادق سے محروم ہوں گے وہ بہرحال دولت حق و ہدایت سے محروم ہوں گے اور ان کا ٹھکانہ و انجام دوزخ کی ہولناک آگ ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو جب اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے بارے میں جبر کو پسند نہیں فرمایا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہدایت وغوایت کے سلسلے میں لوگ مختلف راہوں پر چلیں گے۔ بہت سے خوش نصیب اگرچہ حق و ہدایت ہی کی راہ کو اپنائیں گے لیکن بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو تمام تر تعلیم و تذکیر کے باوجود نفس و شیطان کی پیروی میں برائی کی راہ ہی کو اپنائیں گے اور وہ اسی پر چلیں گے۔ اور اسی پر مریں گے۔ سوائے ان کے جن پر تمہارے رب کی رحمت ہوجائے۔ (الا من رحم ربک) اور رب کی یہ رحمت انہی لوگوں کو نصیب ہوسکتی ہے اور اس کے اہل اور سزاوار وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنی عقل و فکر، سمع و بصر اور دل و دماغ کی قوتوں اور صلاحیتوں کو زندہ رکھ کر ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ورنہ جو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھے بن جاتے ہیں اور دن کی روشنی میں بھی ٹھوکریں کھاتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کی سنت کے مطابق نور حق و ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ سو ایسے منکر اور معاند لوگ اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے دستور کی زد میں ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے صحیح راستہ اپنائیں اور اپنے آپ کو اپنے رب کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و عنایت کا حقدار بنائیں (ولذلک خلقہم) سو امتحان و اختیار انسانی خلقت کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس سے گزرے بغیر کوئی شخص رحمت خداوندی کا حقدار نہیں بن سکتا۔ ابتلاء و آزمائش کے مرحلے سے گزر کر اور امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ہی انسان اس کی خاص رحمت و عنایت کا مستحق بن سکتا ہے۔ 230 ۔ دوزخ کو جنوں اور انسانوں سے بھرنے کا مطلب ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پوری ہوگئی تمہارے رب کی بات کہ میں ضرور بالضرور بھر کر رہوں گا دوزخ کو جنوں اور انسانوں سب سے۔ سو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کے سب لوگ دوزخ میں جائیں گے بلکہ مقصود و مراد یہ ہے کہ ہر طرح کے اور ہر صنف اور ہر قسم کے لوگ جو بھی اس کے مستحق ہوں گے وہ اس میں داخل ہوں گے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں اور کسی بھی قوم، قبیلہ اور نسل و رنگ سے تعلق رکھتے ہوں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ کہیں کہ مجلس سب ہی لوگوں سے بھری ہوئی تھی، یعنی اس میں ہر طرح کے لوگ موجود تھے یہ نہیں کہ سب لوگ وہاں آگئے تھے۔ اس لیے حضرات علمائے کرام اس سے متعلق لکھتے ہیں کہ " عُصَاتُھُمَا " (محاسن التاویل وغیرہ) یعنی جنوں اور انسانوں کے ان دونوں گروہوں کے باغی و سرکش اور عاصی و نافرمان لوگوں سے دوزخ کو بھرا جائے گا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ سو اس ارشاد ربانی میں دراصل رد ہے ان یہود و نصاری پر جن کا دعوی اور کہنا یہ تھا کہ ہمیں تو دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں بجز گنتی کے چند دنوں کے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ان کا یہ قول اس طرح نقل فرمایا گیا ہے۔ (نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ ) یا جیسے روافض نے اپنے خود ساختہ ائمہ معصومین کے بارے میں اس طرح کے عقیدے گھڑ رکھے ہیں کہ وہ جس کو چاہیں جنت کا ٹکٹ دے دیں اور جس کو چاہیں دوزخ میں بھیج دیں۔ جیسا کہ آج کل ان کے ایسے خود ساختہ اور من گھڑت عقائد کی طرح طرح سے تشہیر کی جارہی ہے یا جیسا کہ اہل بدعت وغیرہ دوسرے اہل زیغ و ضلال طرح طرح کے نام اور لقب اختیار کرکے اور خاص مراتب و شان کے دعویدار بن کر اپنے لیے خصوصی حقوق و امتیازات کا ادعا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سو اس آیت کریمہ اور اسی طرح قرآن و سنت کی دیگر نصوص اور تعلیمات مقدسہ میں جگہ جگہ اور طرح طرح سے واضح کردیا گیا ہے کہ اس طرح کے خود ساختہ امتیازات وہاں کچھ بھی کام نہیں آئیں گے بلکہ اصل چیز جو وہاں کام آسکے گی وہ ہے صحیح ایمان و عقیدہ اور اس کے مطابق عمل صالح۔ سو اس سے جو بھی سرشار و سرفراز ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی رحمت و عنایت سے جنت میں جائے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ اور جو اس سے محروم ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔ وہ دوزخ کا مستحق ہوگا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ محض حسب و نسب یا زبانی کلامی دعوؤں سے وہاں کام نہیں چلے گا بلکہ ایمان و یقین اور عمل صالح کی پونجی ہی کام دے گی۔ اس لیے ہمیشہ اسی کے حصول اور اس سے سرفرازی کی فکر و کوشش میں رہنا چاہئے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید بکل حال من الاحوال۔
Top