Tafseer-e-Madani - Hud : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا النَّارُ١ۖ٘ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْهَا وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ لَيْسَ لَهُمْ : ان کے لیے نہیں فِي الْاٰخِرَةِ : آخرت میں اِلَّا النَّارُ : آگ کے سوا وَحَبِطَ : اور اکارت گیا مَا : جو صَنَعُوْا : انہوں نے کیا فِيْهَا : اس میں وَبٰطِلٌ : اور نابود ہوئے مَّا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا، برباد ہوگیا وہ سب کچھ جو انہوں نے دنیا میں بنایا تھا، اور نابود ہوگیا وہ سب کچھ جو یہ لوگ کرتے رہے تھے،
39 ۔ صرف دنیا چاہنے والوں کے لیے آخرت میں دوزخ کی آگ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخرت میں ان کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کہ وہاں کے لئے کوئی عمل کرنا تو درکنار انہوں نے اس کے لیے نیت ہی نہیں کی تھی کہ ان کا اس پر ایمان ہی نہیں تھا اور مزید یہ کہ وہ اپنے کئے کا بدلہ اس دنیائے فانی ہی میں پاچکے ہیں۔ سو کس قدر خسارے کا سودا ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں کہ آخرت کی ان حقیقی اور ابدی نعمتوں کو بھول کر ایسی دنیا کے حطام زائل اور متاع فانی پر قانع ہوجاتے ہیں جو کہ سب سے بڑا نقصان اور خساروں کا خسارہ ہے۔ اور ایسا خسارہ کہ اس کی تلافی وتدارک کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ جبکہ مومن صادق کو اس کے اعمال صالحہ کی کچھ برکات اگرچہ اس دنیاوی زندگی میں بھی نصیب ہوتی ہیں جن سے وہ طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوتا لیکن اس کو اپنے کئے کرائے کا اصل اور پورا بدلہ آخرت کے اس ابدی جہاں ہی میں ملے گا جو کہ " دار الجزاء " ہے اور جس کی جزاء مومن کا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین ہے۔ اور اسی بناء پر وہ اپنی دنیاوی زندگی کی فرصت محدود کو آخرت کی کمائی کے لیے موقع اور اس کی فرصت سمجھتے ہیں اور اس کو اسی میں صرف کرتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ 40 ۔ ایسے لوگوں کا کیا کرایا سب اکارت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ برباد ہوگیا وہ سب کچھ جو ان لوگوں نے بنایا تھا اور نابود ہوگئے ان کے وہ سب کام جو ایسے لوگ کرتے رہے تھے۔ سو آخرت کے اس ابدی جہاں میں ان کو کچھ بھی کام نہیں آئے گا کہ دنیا میں انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس کی نہ بنیاد صحیح تھی اور نہ ان لوگوں کی نیت درست تھی، نہ ایمان نہ تقوی۔ بلکہ ان لوگوں کا اصل مقصد دنیا ہی دنیا تھی۔ اور ظاہری اعتبار سے جو نیک اعمال یہ لوگ کرتے بھی تھے وہ بھی دراصل دنیا ہی کے لیے کرتے تھے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ اس شخص کو سخت ترین عذاب ہوگا جس کو لوگ بھلائی پر سمجھتے ہوں اور اس میں کوئی بھلائی نہ ہو۔ (جامع البیان) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ یہی مضمون سورة بنی اسرائیل (18 ۔ 20) میں ذرا وضاحت سے بیان فرمایا گیا ہے کہ طالبان دنیا کے لیے دنیا ہی دنیا ہے اور طالبان آخرت کے لیے دنیا کے علاوہ آخرت کی ابدی اور سدا بہار نعمتیں بھی۔ سو اصل دولت دین و ایمان ہی کی دولت ہے جو انسان کے لیے سعادت دارین کی کفیل وضامن ہے۔ اور اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے اس لئے عقل و نقل سب کا تقاضا ہے کہ اسی کو اپنا اصل اور حقیقی مقصد اور نصب العین بنایا جائے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔
Top