Tafseer-e-Madani - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا نوح کو (رسول بنا کر) ان کی قوم کی طرف، (تو انہوں نے ان سے کہا کہ) بیشک میں تم لوگوں کے لئے خبردار کرنے والا ہوں کھول کر (حق اور حقیقت کو)
62 ۔ تاریخ سے درس عبرت لینے کی تعلیم و تلقین : سو یہاں سے گذشتہ انبیاء و رسل اور ان کی قوموں کی تاریخ کا حوالہ دیا جارہا ہے جس سے ان حقائق کی تائید و تصدیق ہوتی ہے جو عقل و فطرت کے دلائل کی روشنی میں اوپر بیان فرمائے گئے ہیں۔ جن میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا گیا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ ہم ہی نے نوح کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ان کی قوم کی طرف جس سے اس اہم بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت ان کی قوم کی طرف تھی اور بس۔ کہ دوسرے انبیاء کرام کی طرح ان کی بعثت و نبوت بھی عام اور عالمی نہیں تھی بلکہ ایک خاص دور کے لئے اور ان ہی کی قوم کے لیے تھی اور بس۔ ساری اقوام اور قیامت تک کے جملہ ازمان کے لیے نبوت عامہ کے شرف سے صرف خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہی کو نوازا گیا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا یعنی " ہم نے آپ کو اے پیغمبر سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے " اور اس کے علاوہ بھی قرآن و سنت کی بیشمار نصوص کریمہ میں آپ کی اس عالمی بعثت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ سو عالمی دین صرف اسلام ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں اور جملہ زمانوں کے لیے ہدایت و رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور اب قیامت تک ہدایت و نور کا سرچشمہ یہی رہے گا۔ بہرکیف یہاں سے لیکر آگے آیت نمبر 99 تک تاریخی ترتیب کے مطابق گزشتہ قوموں اور ان کے انبیاء و رسل کی سرگزشتوں سے متعلق کئی اہم، عبرت انگیز اور سبق آموز قصص و واقعات کو بیان فرمایا جارہا ہے جن میں ایک طرف تو آنحضرت ﷺ کے لیے اور آپ کے توسط سے آپ کی امت کے ہر داعی حق کے لیے تسکین وتسلیہ کا سامان ہے کہ منکرین و مخالفین کی طرف سے جن کٹھن اور صبر آزما حالات سے آج آپ کو واسطہ پڑ رہا ہے یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں بلکہ پہلے سے ہی ایسے ہوتا چلا آیا ہے۔ لہذا آپ بھی اسی طرح صبر و برداشت اور ثبات و استقامت سے کام لیں جس طرح کہ آپ سے پہلے کے انبیاء و رسل نے لیا۔ اور ان منکرین و مکذبین کے بارے میں کسی طرح کی جلد بازی سے کام نہ لیں جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ ) (الاحقاف : 35) جبکہ دوسری طرف اس میں منکرین و مکذبین کے لیے یہ تنبیہ و تذکیر ہے کہ اگر تم لوگوں نے کفر و انکار کی اپنی روش نہ بدلی تو تمہارا حشر بھی گزشتہ منکرین کی طرح ہوگا کہ اللہ کا قانون سب کے لیے ایک اور یکساں و بےلاگ ہے۔ تم لوگوں کو کوئی سرخاب کے پر تو نہیں لگے ہوئے کہ تم اسی جرم تکذیب کا ارتکاب کرو جس کا ارتکاب ان گزشتہ قوموں نے کیا۔ اور پھر تم اس نتیجہ و انجام سے بچے رہو جو ان لوگوں کو پیش آیا۔ اور تم کو وہ بھگتان نہ بھگتنا پڑے جو ان لوگوں نے بھگتا ہے۔ 63 ۔ پیغمبر کا کام انذار و تبلیغ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم لوگوں کو خبردار کرنے والا ہوں کھول کر کہ تم سب کو کفر و شرک کے انجام بد سے خبردار کردوں اور حق اور حقیقت سے تم لوگوں کو آگاہ کردوں اور بس۔ باقی اس سے آگے بڑھ کر حق کو منوا لینا اور راہ ہدایت پر ڈال دینا اور تم کو اس پر چلا دینا نہ میرے بس میں ہے اور نہ ہی یہ میرا وظیفہ و منصب ہے۔ سو پیغمبر کا اصل کام انذار و تبلیغ اور دعوت دینا ہوتا ہے اور بس۔ اس سے آگے منوا لینا نہ ان کے ذمے ہوتا ہے اور نہ ان کے بس میں۔ آگے جنہوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا ان کا اپنا بھلا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور جنہوں نے ان کی دعوت سے منہ موڑا انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا دنیا میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضاء و خوشنودی کی راہوں پر ثابت قدم رکھے۔ آمین ثم آمین۔
Top