Tafseer-e-Madani - Hud : 29
وَ یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ مَالًا١ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ وَ مَاۤ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ؕ اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ لٰكِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم لَآ اَسْئَلُكُمْ : میں نہیں مانگتا تم سے عَلَيْهِ : اس پر مَالًا : کچھ مال اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا اجر اِلَّا : مگر عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر وَمَآ اَنَا : اور نہیں میں بِطَارِدِ : ہانکنے والا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے اِنَّهُمْ : بیشک وہ مُّلٰقُوْا : ملنے والے رَبِّهِمْ : اپنا رب وَلٰكِنِّيْٓ : اور لیکن میں اَرٰىكُمْ : دیکھتا ہوں تمہیں قَوْمًا : ایک قوم تَجْهَلُوْنَ : جہالت کرتے ہو
اور اے میری قوم، میں تم سے اس کام پر کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ ہی کے ذمے ہے، اور میں ان لوگوں کو دور کرنے سے بھی رہا جو ایمان لا چکے ہیں، انہوں نے یقینا اپنے رب سے ملنا ہے، لیکن میں تمہیں ایسا دیکھتا ہوں کہ تم لوگ قطعی طور پر جہالت برت رہے ہو،
75 ۔ اصل چیز ہے صدق و اخلاص : سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے متکبروں کے اس مطالبے کو کہ غریب لوگوں کو اپنی مجلس سے ہٹا دو کو مسترد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں تم لوگوں کے مطالبے پر ان مخلص مسلمانوں کو اپنی مجلس سے دور نہیں کرسکتا کہ یہ سچے اور مخلص ایماندار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص ہی کی ہے۔ پس میں ان مخلص ایمانداروں کو دور نہیں کرسکتا جیسا کہ تمہارا مطالبہ ہے۔ سو میں ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ ایمان کے شرف سے مشرف ہونے کے باعث اپنے رب کے یہاں ایک خاص مرتبہ پاچکے ہیں پھر میں ان بندگان صدق و صفا کو کس طرح دور کرسکتا ہوں ؟ سو اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قدر و قیمت صدق و اخلاص اور ایمان و یقین ہی کی ہے۔ اور اس سے یہ لوگ سرفراز ومالا مال ہیں۔ تو پھر میں ان کو تمہارے کہنے پر اپنے سے دور کس طرح کرسکتا ہوں ؟ سو میں تم لوگوں کی دلداری میں ان مخلص مسلمانوں کو دھتکارنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ یہ سب اپنے رب پر ایمان لائے ہیں اور اپنے اسی ایمان کے ساتھ یہ لوگ کل اپنے رب سے ملنے والے ہیں اگر تمہارے کہنے سے آج میں ان کو دھتکار دوں تو کل اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ شرافت و رذالت کا اصل فیصلہ تو اسی کے یہاں ہونے والا ہے۔ وہی بتائے گا کہ کون شریف ہے اور کون رذیل۔ ایسے میں یہ مطالبہ کرکے تو تم لوگ نری جہالت برت رہے ہو۔ اس لیے تمہاری یہ بات سننے ماننے کے قابل نہیں۔ 76 ۔ صرف مادیت کو معیار فضیلت قرار دینا نری جہالت۔ والعیاذ باللہ۔ سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ تو نری جہالت برت رہے ہو کہ انسانی شرف کو محض دنیاوی مال و دولت کے پیمانوں سے ناپنا چاہتے ہو اور ان مخلصوں کو اراذل قرار دیتے ہو۔ اور تم انسان کی قدر و قیمت اور اس کے مرتبہ و شرف کو دنیاوی مال و دولت کے باٹوں سے بانٹتے اور انہی پیمانوں سے ناپتے تولتے ہو۔ اور ان بندگان تسلیم و رضا کے ساتھ مل بیٹھنے کو تم لوگ اپنی سعادت جاننے کی بجائے الٹا اس کو اپنی توہین اور کسر شان سمجھتے ہو۔ حالانکہ انسان کی عزت و شان کی کمی بیشی اس طرح کے امور پر نہیں بلکہ ایمان و یقین اور اپنے ذاتی اخلاق اور اوصاف و کردار پر مبنی ہوتی ہے۔ سو انسانی شرف کو دنیاوی مال و دولت کے پیمانوں پر ناپنا حماقت و جہالت ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اے میری قوم اگر میں مخلص بندوں کو تمہاری ناز برداری میں اور تمہارے اس مطالبے پر دھتکار دوں تو کل اللہ کی پکڑ سے مجھے کون چھڑائے گا اور اس کے حضور میں کیا جواب دوں گا ؟ دنیاوی مال و دولت کے نشے میں اور کبر و غرور کی بناء پر تم لوگ اتنے اندھے اور اس قدر اوندھے ہوگئے ہو کہ معاملے کے اس پہلو پر غور و فکر کے لیے تم لوگ تیار ہی نہیں ہوتے اور تم کو اس کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ اور اس طرح تم اپنی محرومی اور بدبختی کی سیاہی کو اور پکا کر رہے ہو۔ مگر تم لوگوں کو اس کا شعور و احساس ہی نہیں۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top