Tafseer-e-Madani - Hud : 33
قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْكُمْ بِهِ اللّٰهُ اِنْ شَآءَ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا اِنَّمَا يَاْتِيْكُمْ : صرف لائے گا تم پر بِهِ : اس کو اللّٰهُ : اللہ اِنْ شَآءَ : اگر چاہے گا وہ وَمَآ اَنْتُمْ : اور تم نہیں بِمُعْجِزِيْنَ : عاجز کردینے والے
تو اس پر نوح نے فرمایا کہ اس کو اللہ ہی لائے گا اگر (اور جب) اس نے چاہا، اور تم ایسے نہیں ہو کہ (اس کو) عاجز کردو،1
83 ۔ عذاب لانا اللہ ہی کے اختیار میں ہے نہ کہ پیغمبر کے اختیار میں : سو ان لوگوں کے مطالبہ عذاب کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا اور " اِنَّمَا " کے کلمہ حصر کے ساتھ فرمایا کہ عذاب تو اللہ ہی لائے گا کہ یہ اسی وحدہ لاشریک کی شان اور اسی کا کام ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنی اور کب تک مہلت اور ڈھیل دی جائے۔ اور کب اور کس شکل میں اس پر عذاب کا کوڑا برسا دیا جائے۔ پیغمبر کا کام تو صرف خبردار کردینا ہوتا ہے اور بس۔ تاکہ جس نے بچنا ہو وہ بچ جائے اور جس نے ہلاک ہونا ہو وہ ہلاکت کے گڑھے میں جا گرے۔ سو عذاب لانا پیغمبر کا کام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور اسی کی شان ہے۔ سو اس سے ایک بات تو یہ واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے بلکہ اختیار کلی اللہ تعالیٰ ہی کی شان اور اسی کا اختصاص ہے۔ اور دوسری بات اس سے یہ واضح ہوجاتی ہے کہ جب پیغمبر اور حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر بھی عذاب لانے پر قادر نہیں تو پھر کوئی پیر و بزرگ کسی پر کوئی عذاب کس طرح واقع کرسکتا ہے ؟ اور وہ بھی اپنی موت کے بعد اور قبر میں اتر جانے کے بعد۔ پس غلط کہتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو سادہ لوح عوام کو ڈرانے کے لیے کہتے ہیں کہ اگر تم نے فلاں بزرگ کے نام کی نذر نیاز نہ دی یا وہاں پر چڑھاوا نہ چڑھایا تو وہ تمہیں نقصان پہنچا دیں گے اور تمہاری گائے بھینس وغیرہ کو مار دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 84 ۔ اللہ کے عذاب کو ٹالنا کسی کے بس میں نہیں۔ والعیاذ باللہ : سو حضرت نوح (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ عذاب تو اللہ ہی لائے گا جب چاہے گا اور تم ایسے نہیں ہو کہ عاجز کردو۔ اس طرح کہ وہ عذاب نہ آنے دو یا اس سے کہیں نکل بھاگو۔ سو تم لوگوں کو خبردار کردیا گیا ہے تاکہ جس نے بچنا ہو وہ بچ جائے، اور جس نے ہلاک ہونا ہو وہ اپنی ذمہ داری پر ہلاک ہوجائے (لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ ) یہاں پر (اِنَّمَا) کا کلمہ حصر لاکر بتادیا گیا کہ یہ سب کچھ اللہ پاک ہی کی شان ہے۔ نبی کا اس میں نہ کوئی دخل ہوتا ہے نہ اختیار۔ سو پیغمبر نہ عالم غیب ہوتا ہے نہ مختار کل۔ جس طرح کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ بلکہ علم غیب کلی اور اختیار کلی اللہ وحدہ لاشریک ہی کی شان اور اسی کا اختیار و اختصاص ہے۔ اس کے سوا کسی کو بھی عالم غیب اور مختیار کل ماننا شرک ہوگا۔ والعیاذ باللہ۔ اور پیغمبر کا کام صرف انذار وتبشیر اور تبلیغ حق ہوتا ہے اور بس۔ آگے عذاب دینا نہ دینا اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہوتا ہے۔ کہ وہی جانتا ہے کون کس لائق ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔
Top