Tafseer-e-Madani - Hud : 35
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُهٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ۠   ۧ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : بنا لایا ہے اس کو قُلْ : کہ دیں اِنِ افْتَرَيْتُهٗ : اگر میں نے اسے بنا لیا ہے فَعَلَيَّ : تو مجھ پر اِجْرَامِيْ : میرا گناہ وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : بری مِّمَّا : اس سے جو تُجْرِمُوْنَ : تم گناہ کرتے ہو
کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے، تو (ان سے) کہو کہ اگر میں نے اس کو خود گھڑ لیا ہے تو میرے جرم کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور میں اس جرم سے بری ہوں جو تم لوگ کر رہے ہو،
87 ۔ منکرین کو اپنے بارے میں فکر کرنے کی ہدایت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے اس قرآن کو خود گھڑ لیا ہے تو ان سے کہو کہ اگر میں نے اس کو خود گھڑ لیا ہے تو میرے جرم کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور میں تمہارے ان جرائم سے بری ہوں جو تم کرتے ہو۔ پس تم لوگ مجھ پر اس طرح کے الزامات لگانے کی بجائے خود اپنی فکر کرو کہ ہر کسی کو اپنے کئے کا بھگتنان خود ہی بھگتنا ہوگا۔ کوئی کسی دوسرے کے کئے کا ذمہ دار و جواب دہ اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہوگا کہ اصول یہ ہے کہ (اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) کہ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم و فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہوتا ہے۔ وہاں اس کی کوئی گنجائش نہیں کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ اور یہ بھی سوچو کہ جب اللہ تعالیٰ پر افتراء کا نتیجہ و انجام یہ ہے تو پھر میں اس جرم کا ارتکاب بھلا کس طرح کرسکتا ہوں ؟ پس ہمارے پیچھے پڑنے کی بجائے تم لوگ خود اپنے نفع و نقصان کے بارے میں سوچو اور اپنی بہتری کا سامان کرو۔ سو اس میں منکرین کو ایک بڑی اہم اور سبق آموز نصیحت فرمائی گئی ہے کہ دوسروں کے پیچھے پڑنے کی بجائے تم لوگ خود اپنی فکر کرو تاکہ اپنے انجام بد سے بچ سکو۔ ورنہ ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔ یارب العالمین ویا ارحم الراحمین۔
Top