Tafseer-e-Madani - Hud : 52
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اسْتَغْفِرُوْا : تم بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو يُرْسِلِ : وہ بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : زور کی بارش وَّيَزِدْكُمْ : اور تمہیں بڑھائے گا قُوَّةً : قوت اِلٰي : طرف (پر) قُوَّتِكُمْ : تمہاری قوت وَلَا تَتَوَلَّوْا : اور روگردانی نہ کرو مُجْرِمِيْنَ : مجرم ہو کر
اور اے میری قوم کے لوگو ! تم سب بخشش مانگو اپنے رب سے، پھر (سچے دل سے) اس کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر آسمان کے دھانے کھول دے گا (موسلادھار بارش کے لئے) اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید قوت کا اضافہ فرمائے گا، اور مت پھرو تم لوگ (اس پیغام حق سے) مجرم بن کر2
119 ۔ اپنے رب سے بخشش مانگنے کی تعلیم و تلقین : سو حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم لوگ بخشش مانگو اپنے رب سے۔ اپنے گزشتہ جرائم کی۔ ایمان لاکر کہ وہ بڑا ہی بخشنہار ہے۔ سچی توبہ پر وہ سب ہی گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے خواہ وہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں کہ اس کی رحمت و عنایت کا کوئی کنارہ نہیں۔ سو نجات کی راہ یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں اور خطاؤں کی اپنے رب سے معافی مانگے اور سچے دل سے مانگے اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے استغفار کو لازم پکڑ لیا اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ مہیا فرمائے گا اور اس کو ہر غم سے کشائش نصیب فرمائے گا اور اس کو روزی وہاں سے عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ سو اپنے رب سے بخشش کی دعا و درخواست میں خود بندے کا اپنا ہی بھلا اور فائدہ ہے۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ بکل حال من الاحوال۔ 120 ۔ رجوع الی اللہ کی تعلیم و تلقین : سو حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ اور اللہ ہی کی طرف رجوع کرو تم لوگ آئندہ کے لیے ایمان و اطاعت کے ذریعے۔ سو تم لوگ رجوع اللہ ہی کی طرف کرو کہ یہ اس خالق ومالک کا اس کے بندوں پر حق ہے۔ اور اسی میں بندوں کا بھلا اور ان کا فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی۔ اور طریقہ اس رجوع کا یہ ہے کہ ہمیشہ اور ہر حال میں اس کی اطاعت کرو اور اس کی اولین شرط ایمان ہے۔ سچا پکا ایمان۔ اطاعت و بندگی والا ایمان۔ سو توبہ اور رجوع الی اللہ کے ذریعے بندہ اسی صراط مستقیم اور راہ حق پر واپس آجاتا ہے جو اس کے خالق ومالک نے اس کے لیے مقرر فرمائی ہے اور جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار اور بہرہ ور کرنے والی راہ ہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اس کی خاص عنایات سے بہرہ مند و سرفراز ہوتا جاتا ہے اور اس کو بہتر سے بہتر کی طرف بڑھنے اور ترقی کرنے کی سعادت نصیب ہوتی رہتی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ جل جلالہ وعم نوالہ۔ 121 ۔ رجوع الی اللہ باعث خیرات و برکات : سو حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ اس پر اللہ تعالیٰ تو لوگوں کو خوب خوب بارشوں سے نوازے گا۔ جس سے تمہاری قحط سالی دور ہوجائے گی اور تمہارے لیے زمین سے طرح طرح کی فصلیں اور پیدواریں اگیں گی جن سے تم لوگ طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہوؤگے اور تمہارے اندر خوشحالی اور فارغ البالی کا دور دورہ ہوگا۔ سو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی اور اس کی طرف رجوع وانابت اور اس کے دین حق کو صدق دل سے اپنانے سے آخرت سے پہلے اس دنیا میں بھی اس خالق ومالک کی طرف سے طرح طرح کی رحمتوں اور برکتوں سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے اور تجربہ اس کا شاہد عدل ہے فللہ الحمد رب العالمین۔ 122 ۔ رجوع الی اللہ قوت میں اضافے کا ذریعہ : سو حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ اس سے تمہاری جسمانی قوت و طاقت میں اضافے کے ساتھ تمہاری اولاد و نسل میں بھی اضافہ ہوگا۔ سو توبہ و استغفار اور حضرت حق۔ جل مجدہ۔ کی بارگاہ اقدس و اعلیٰ کی طرف صدق دل سے انابت و رجوع شاہ کلید ہے دارین کی سعادت و سرخروئی کی۔ جیسا کہ حضرت نبی معصوم۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے استغفار کو لازم پکڑا، اللہ پاک اس کو ہر غم سے آزادی اور ہر تنگی سے کشائش نصیب فرمائے گا۔ اور اس کو روزی وہاں سے عطا فرمائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوگا۔ من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ہم فرجا ومن ضیق مخرجا ورزقہ من حیث لا یحتسب۔ فارزقنا اللہم التوفیق لذالک والثبات علیہ حتی نلقاک وانت راض عنا بمحض منک وکرمک یا ارحم الراحمین ویا اکرم الاکرمین۔ بہرکیف توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ طرح طرح کی خیرات و برکات سے سرفرازی کا ذریعہ اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی اور قوت پر قوت کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ 123 ۔ دین حق سے منہ موڑنا سب سے بڑا جرم۔ والعیاذ باللہ۔ سو حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ مت پھرو مجرم بن کر اپنے خالق ومالک کے حکم و ارشاد سے منہ موڑنا اور باغی و سرکش بن کر رہنا سب سے بڑا فساد اور سنگین جرم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اور ہر طرح کے جرم سے محفوظ رکھے۔ اللہم فخذ بنواصینا الی مافیہ حبک ورضاک بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ سو اللہ کے دین سے منہ موڑنا اور اس کے احکام کو توڑنا فساد فی الارض سب سے بڑا جرم ہے اگرچہ ایسے لوگ اپنے آپ کو بہت کچھ کہتے اور سمجھتے ہوں۔ کیونکہ فساد ضد ہے صلاح و اصلاح کی۔ اور وہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ ہر چیز کو اس کے اصل موقع و محل میں نہ رکھا جائے جو اس کے لیے طبعی اور فطری طور پر مقرر ہے۔ اور کسی چیز کا اصل موقع و محل کیا ہے ؟ یہ ایسا سوال ہے کہ اس کا صحیح جواب حضرت خالق ومالک۔ جل مجدہ۔ کے سوا اور کوئی دے ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ وہی وحدہ لاشریک جانتا ہے کہ کس چیز کو اس نے کس غرض و مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے اور اس کا اصل اور حقیقی موقع و محل کیا ہے۔ اس کے سوا دوسرا کوئی اس بارے صحیح طور پر کچھ کہہ سکتا ہی نہیں۔ جبکہ ابنائے دنیا اشیائے دنیا کے ظاہری اور مادی پہلو ہی کے اعتبار سے کچھ جان سکتے ہیں۔ اور وہ بھی ایک خاص حد تک اور بس۔ اس سے آگے وہ کچھ نہیں جان سکتے۔ نہ کسی چیز کی اصل اور حقیقت کے بارے میں اور نہ ہی اس کے نتیجہ و انجام کے بارے میں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ سو دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کو اپنائے بغیر اصلاح احوال ممکن ہی نہیں۔ اور اس کا نتیجہ و انجام فساد اور بگاڑ ہے جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا اور آج تک برابر ہو رہا ہے۔ اور اس کے مظاہر اور نمونے یہاں اور وہاں جگہ جگہ اور طرح طرح سے نظر آرہے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ سو معبود برحق اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کو معبود ماننا یا اس کی اطاعت و بندگی سے اعراض و روگردانی برتنا سراسر فساد اور ہلاکت و تباہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (لَوْ كَانَ فِيْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا) (الانبیاء : 22) ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top