Tafseer-e-Madani - Hud : 54
اِنْ نَّقُوْلُ اِلَّا اعْتَرٰىكَ بَعْضُ اٰلِهَتِنَا بِسُوْٓءٍ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اُشْهِدُ اللّٰهَ وَ اشْهَدُوْۤا اَنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَۙ
اِنْ : نہیں نَّقُوْلُ : ہم کہتے اِلَّا : مگر اعْتَرٰىكَ : تجھے آسیب پہنچایا ہے بَعْضُ : کسی اٰلِهَتِنَا : ہمارا معبود بِسُوْٓءٍ : بری طرح قَالَ : اس نے کہا اِنِّىْٓ : بیشک میں اُشْهِدُ : گواہ کرتا ہوں اللّٰهَ : اللہ وَاشْهَدُوْٓا : اور تم گواہ رہو اَنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار ہوں مِّمَّا : ان سے تُشْرِكُوْنَ : تم شریک کرتے ہو
ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم پر مار پڑگئی ہے ہمارے معبودوں میں سے کسی کی، ہود نے فرمایا میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور خود تم سب بھی گواہ رہو کہ میں ان تمام چیزوں سے قطعی طور پر بری اور بیزار ہوں جن کو تم لوگ شریک ٹھہراتے ہو (اس وحدہ لاشریک کا)
125 ۔ شرک اور مشرک کا ایک خاصہ غیر اللہ سے ڈرنا اور ڈرانا : سو ان لوگوں نے حضرت ہود (علیہ السلام) کی اس دعوت حق کے جواب میں کہا کہ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ تم پر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑگئی جو تم ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ سو مشرک اور مشرک کا یہی خاصہ ہے کہ وہ ہمیشہ غیر اللہ سے ڈرتا اور ڈراتا رہتا ہے۔ چناچہ آپ دیکھیں گے کہ اہل حق کے مقابلے میں کلمہ گو مشرکوں کا آج بھی یہی حال ہے کہ وہ سادہ لوح لوگوں کو اس طرح کے ڈراوے آج بھی دیتے رہتے ہیں کہ فلاں شخص نے گیارہویں نہیں دی اس لئے اس کی بھینس مرگئی۔ فلاں شخص کو فلاں قبر والے نے یہ نقصان پہنچا دیا، فلاں کو گیارہویں والے پیر نے مار دیا وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ زندگی و موت دونوں قرآن و سنت کی تصریحات کے مطابق اللہ پاک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں اور اسی کی صفت و شان ہے کہ جس کو چاہتے زندگی بخشے اور جس کو چاہے موت سے ہمکنار کردے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ مگر اس کے باوجود ایسے جاہلوں کا کہنا یہ ہے کہ فلاں بزرگ نے فلاں شخص کو یا فلاں چیز کو مار دیا۔ یا فلاں مرے ہوئے کو زندہ کردیا وغیرہ وغیرہ۔ اب ہر عقلمند سوچے کہ آج کے اس شرک اور کل کے اس شرک میں آخر کیا فرق ہے ؟ جو مشرکین عرب کرتے تھے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 126 ۔ مشرکوں سے اظہار براءت و بیزاری : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم لوگ بھی اس بات کے گواہ رہو کہ میں ان تمام چیزوں سے قطعی طور پر بری اور بیزار ہوں جن کو تم لوگ شریک ٹھہراتے ہو اللہ وحدہ لاشریک کا۔ یعنی تم لوگوں نے اگر حق کو نہ ماننے کا تہیہ کرلیا ہے اور تم اپنے کفر و باطل پر اڑ گئے ہو تو تمہاری مرضی۔ تم جانو اور تمہارا کام۔ میرا راستہ بہرحال تم سے الگ ہے اور میں تم سے اور تمہارے کفر و شرک سے قطعی طور پر بری و بیزار اور الگ ہوں۔ (لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ) سو یہ اہل حق کی طرف سے اہل باطل کو آخری جواب ہے کہ اگر تم لوگ نہیں مانتے تو تمہارا راستہ الگ میرا الگ کہ جب تم نے ماننا ہی نہیں تو پھر تم سے بات کرنے کا اور تم کو منہ لگانے کا فائدہ ہی کیا ؟۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ بہرکیف جب حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کے ان متکبر منکروں نے آنجناب کو یہ جواب دیا اور اپنے خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کی تاثیر کا ذکر کیا تو آپ کی غیرت توحید بھڑک اٹھی اور آپ نے ان کی بات کاٹ کر ان لوگوں کو قوت ایمانی سے بھرپور و لبریز یہ جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرکے کہتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان تمام چیزوں سے قطعی طور پر بری اور بیزار ہوں جن کو تم لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ سو اب یہ میرا کچھ بگاڑ کردکھائیں۔ جب ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تو پھر تم ان کو خدا کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو۔
Top