Tafseer-e-Madani - Hud : 59
وَ تِلْكَ عَادٌ١ۙ۫ جَحَدُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ وَ عَصَوْا رُسُلَهٗ وَ اتَّبَعُوْۤا اَمْرَ كُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ
وَتِلْكَ : اور یہ عَادٌ : عاد جَحَدُوْا : انہوں نے انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں کا رَبِّهِمْ : اپنا رب وَعَصَوْا : اور انہوں نے نافرمانی کی رُسُلَهٗ : اپنے رسول وَاتَّبَعُوْٓا : اور پیروی کی اَمْرَ : حکم كُلِّ جَبَّارٍ : ہر سرکش عَنِيْدٍ : ضدی
اور یہ عاد ہیں جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ، اور انہوں نے نافرمانی کی اس کے رسولوں کی اور پیچھے لگے رہے وہ ہر بڑے ظالم ہٹ دھرم کے،
135 ۔ قوم عاد اور ان کے جرائم کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ہیں عاد جنہوں نے کفر کیا اپنے رب کے ساتھ اور انہوں نے نافرمانی کی اس کے رسولوں کی۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی طرف اس کی شہرت کی بناء پر ایسے اسمائے اشارات سے اشارہ کرنا درست اور بلاغت کلام کا ایک معروف اسلوب ہے جو اشارہ قریب کے لیے موضوع ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ مشار الیہ وہاں موجود نہ ہو۔ پس اہل بدعت جو منکر و نکیر کے سوال قبر کے سلسلہ میں " ماذا تقول فی ھذا الرجل " الخ سے اپنے شرکیہ عقائد پر استدلال کرتے ہیں وہ سراسر باطل و مردود ہے۔ ورنہ ان لوگوں کو قوم عاد کے بارے میں بھی ایسے ہی شرکیہ عقائد رکھنے پڑیں گے کہ یہاں بھی اسم اشارہ قریب ہی کا استعمال ہوا ہے۔ تو اس بارے میں یہ لوگ کیا کہیں گے ؟ بہرکیف عاد کی اس بدبخت قوم کی طرف اشارہ کرکے دور حاضر کے منکروں کو درس عبرت دیا جارہا ہے کہ تم ان منکروں کے انجام سے سبق لو کہ ان لوگوں نے اپنے رب کی آیتوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی تو ایسے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ سو یہی انجام ہوتا ہے ان لوگوں کا جو اپنے رب کی آیتوں کا انکار اور اس کے رسولوں کی تکذیب اور نافرمانی کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 136 ۔ تکذیب رسول کے جرم کی سنگینی : سو قوم عاد کے باب میں ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے تکذیب کی اللہ کے رسولوں کی۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ کسی ایک رسول کی تکذیب اور اس کی نافرمانی دراصل سب ہی انبیائے کرام کی تکذیب و نافرمانی ہوتی ہے۔ کیونکہ ان سب حضرات کی دعوت اور ان کا مشن ایک ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں پر قوم عاد کو سب رسولوں کی تکذیب کا مجرم قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ ان کی طرف بعثت صرف حضرت ہود (علیہ السلام) کی ہوئی تھی اور انہوں نے تکذیب بھی انہی کی کی تھی۔ نیز اس قصہ سے یہ بھی عیاں اور واضح ہوگیا کہ حضرات انبیائے کرام۔ علیہم الصلوۃ والسلام۔ اور ان کے لائے ہوئے دین حق کی تکذیب کا آخری انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ اور ان پر ایمان و یقین اور ان کی اطاعت و اتباع باعث نجات اور ذریعہ فوز و فلاح ہے کہ نبی کے ذریعے انسان کو حق و ہدایت کی وہ روشنی ملتی ہے جس سے اس کے لیے سعادت دارین کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ ورنہ وہ اندھیروں ہی میں رہتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو جب حضرت ہود (علیہ السلام) بھی وہی پیغام لے کر آئے تھے جو باقی انبیائے کرام لے کر آئے تھے تو ان کی تکذیب سب رسولوں کی تکذیب ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 137 ۔ ظالم ظالم کے پیروکار۔ والعیاذ باللہ۔ سو قوم عاد کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے پیروی کی ہر بڑے ظالم ہٹ دھرم کی۔ سو یہ بھی سرکش انسان کی ایک طرح کی مشترکہ نفسیات رہی ہے جس کی نشاندہی کلام حکیم میں یہاں فرمائی جارہی ہے کہ انسانوں کی اکثریت عام طور پر ایسے ہی سرکش اور ہٹ دھرم عناصر کے پیچھے چلتی رہی ہے۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ جس کا تجربہ دور حاضر کے انتخابات میں عام طور پر ہوتا رہتا ہے۔ اسی لئے تاریخ اسلام کے ایک جلیل القدر اور شعلہ نوا خطیب اور برصغیر ہند و پاک کے عظیم سپوت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری۔ نور اللہ مرقدہ۔ اپنی قوم کو خطاب کرکے فرمایا کرتے تھے کہ ڈنڈے کے آگے اور پیسے کے پیچھے بھاگنے والی قوم، تم لوگ تقریریں تو میری سنتے ہو۔ اور جھوم جھوم کر سنتے ہو، مگر ووٹ تم دوسروں کو اور میرے مخالفوں کو دیتے ہو۔ اور یہی حال تھا اس قوم کا پہلے بھی اور یہ اس کا حال ہے آج اور اب بھی۔ الا من حفظہ اللہ۔ اور ظالم اور ہٹ دھرم لوگوں کے پیچھے چلنے کا نتیجہ و انجام ہلاکت و تباہی رہا۔ پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون و دستور سب کے لیے یکساں اور ہمیشہ ایک ہی رہا۔ پس پیروی ہمیشہ حق اور اہل حق ہی کی کرنی چاہیے اور اہل کفر و باطل سے اظہار براءت و بیزاری۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی مایحب ویرید۔
Top