Tafseer-e-Madani - Hud : 5
اَلَاۤ اِنَّهُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَهُمْ١ۙ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّھُمْ : بیشک وہ يَثْنُوْنَ : دوہرے کرتے ہیں صُدُوْرَھُمْ : اپنے سینے لِيَسْتَخْفُوْا : تاکہ چھپالیں مِنْهُ : اس سے اَلَا : یاد رکھو حِيْنَ : جب يَسْتَغْشُوْنَ : پہنتے ہیں ثِيَابَھُمْ : اپنے کپڑے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا يُعْلِنُوْنَ : اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌ : جاننے والا بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : دلوں کے بھید
دیکھو ! (حق اور داعی حق کی عداوت میں کس طرح) پھیرتے ہیں یہ لوگ اپنے سینوں کو، تاکہ یہ چھپ سکیں اس سے، آگاہ رہو کہ (یہ سراسر ان کی حماقت اور بھول ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ) جب یہ لوگ لپیٹے ہوئے ہوتے ہیں (اپنے اوپر) اپنے کپڑے، اللہ ایک برابر جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ یہ لوگ چھپاتے ہیں، اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ پوری طرح جانتا ہے سینوں کے بھیدوں کو
13 ۔ منکرین کے اعراض و استکبار کی تصویر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ پھیرتے ہیں اپنے سینوں کو تاکہ یہ چھپ سکیں اس سے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے۔ تاکہ اس طرح یہ بچ سکیں اس کی گرفت و پکڑ سے یا (مِنہ) کی اس ضمیر کا مرجع رسول ہیں۔ ﷺ یعنی تاکہ یہ لوگ اللہ کے رسول سے چھپ سکیں۔ تاکہ اس طرح نہ یہ ان کی صورت کو دیکھ سکیں اور نہ ان کی آواز حق کو سن سکیں۔ سو (منہ) کی ضمیر کے مرجع میں یہ دونوں احتمال موجود ہیں۔ (الجامع، المنار، المعارف وغیرہ) اور اس طرح یہ بدنصیب لوگ اپنی حرمان نصیبی کا سامان خود کر رہے ہیں۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے ضد وعناد اور ہٹ دھرمی کا۔ اور اس طرح یہ لوگ نور حق و ہدایت سے اور محروم ہوتے ہیں جو کہ سب سے بڑی محرومی ہے۔ لیکن ان کو اس کا احساس ہی نہیں۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے خبث باطن اور سوء اختیار کا کہ اس سے انسان ادراک و احساس کے پاکیزہ مشاعر سے بھی محروم ہوجاتا ہے اور وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے سے بھی عاری ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس ارشاد سے اس رویے کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے جو کفار و منکرین پیغمبر کے انذار کے بارے میں اپنائے ہوئے تھے کہ یہ لوگ کبر و غرور کی بناء پر اپنے سینے موڑ کر وہاں سے چل دیتے اور اپنے زعم میں سمجھتے کہ گویا انہوں نے اس طرح کرکے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے انذار سے محفوظ کرلیا۔ اور اس طرح یہ اپنی حماقت پر حماقت کا ثبوت دیتے۔ اور اپنی محرومی کی چھاپ کو اور پکا اور گہرا کرتے مگر ان کو اس کا شعور و احساس نہ ہوتا۔ 14 ۔ اللہ تعالیٰ کے کمال علم کا حوالہ و ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت بھی خوب جانتا ہے جبکہ یہ اپنے اوپر کپڑے لپیٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ سو وہ ایک برابر جانتا ہے جس کو یہ لوگ چھپاتے ہیں اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں۔ سو وہ ان کے اسرار اور اعلان کی دونوں حالتوں کو خوب جانتا ہے کہ عیاں و نہاں سب اس کے یہاں ایک برابر ہے۔ اور یہاں بھی (ما یسرون) اور (ما یعلنون) دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرنے سے یہی مفہوم نکلتا ہے ورنہ محض (ما یعلنون) کو تو ہر کوئی جانتا ہے۔ سو اس عالم الغیب والشہادۃ کے یہاں یہ دونوں صورتیں ایک برابر ہیں۔ اور غیب و شہادہ یعنی ظاہر و پوشیدہ اور عیاں و نہاں کی یہ تقسیم بھی اس کے بندوں کے لحاظ سے اور ہما و شما کے اعتبار سے ہے جو غیب کو بھی ایسے ہی جانتا ہے جیسے شہود کو۔ اور یہ اسی وحدہ لاشریک کی شان ہے۔ بھلا ایسی ذات اقدس و اعلیٰ سے کسی کا چھپنا یا اپنے کسی حال کو چھپانا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ پس جو اپنے کپڑے ڈال کر اور اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال کر اس سے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بڑے ہی احمق اور مت کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔ جو اپنے اس اعراض وا ستکبار اور کبر و غرور سے خود اپنی ہی حرمان نصیبی کا سامان کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 15 ۔ اللہ سے کسی چیز کو چھپانا ممکن نہیں : کہ اللہ سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور حرف تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ بلاشبہ وہ پوری طرح جاننے والا ہے سینوں کے بھیدوں کو بھی۔ پس اس سے کوئی بھی چیز چھپ نہیں سکتی اور جب اللہ سے چھپنا ممکن ہی نہیں تو پھر ان کوڑھ مغزوں کی ان چالبازیوں کا فائدہ ہی کیا۔ سوائے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے۔ اور خود کو نور حق و ہدایت سے اور دور اور محروم کرنے کے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اہل بدعت جو اپنے مزعومہ وسیلہ کے اثبات کے لیے اس طرح کی قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں کہ صاحب جب تم دنیا کے کسی بادشاہ کے پاس براہ راست نہیں پہنچ سکتے، اپنی عرضی و درخواست خود پیش نہیں کرسکتے اور وہاں پر تمہاری شنوائی نہیں ہوسکتی جب تک کہ تم کوئی وسیلہ و واسطہ نہ پکڑو۔ تو پھر تم براہ راست اللہ تعالیٰ کے یہاں بلا کسی وسیلہ و واسطہ کے کیسے پہنچ سکتے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ۔ تو ان لوگوں کی یہ منطق و قیاس آرائی ایسی نصوص کریمہ سے باطل اور مردود قرار پاتی ہے اور اس میں بنیادی غلطی جو کہ آگے کئی طرح کی خرابیوں اور غلطیوں کی اساس اور جڑ بنیاد ہے، یہ ہے کہ اس میں حضرت خالق۔ جل مجدہ۔ کو مخلوق پر قیاس کیا گیا ہے۔ جبکہ وہ خالق ہے اور اس کی شان مخلوق سے کہیں اعلیٰ وبالا اور وراء الوراء ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بھلا جس ذات سے انسان کی کوئی حالت و کیفیت پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور جو دلوں کی باتوں اور سینوں کے بھیدوں تک کو پوری طرح جانتا ہے اس کو دنیا کے عاجز ناقص العلم اور بیخبر بادشاہوں پر قیاس کرنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے ؟ تَعَالَی اللہُ عَمَّا یَقُولُونَ عُلّوًّا کَبِیرًا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے طور پر مثالیں بیان کرنے سے منع فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر منع فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( فَلاَ تَضرِبُوا لِلّٰہِ الاَمثَال) ۔ (النحل :74) یعنی تم لوگ اللہ کے لیے از خود مثالیں مت بیان کرو اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ انسان اپنے طور پر جو بھی کوئی مثال بیان کرے گا وہ مخلوق کے لائق اور مخلوق ہی کے دائرے میں ہوگی۔ کیونکہ اس کی کھوپڑی بہرحال مخلوق اور محدود ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس و اعلیٰ دائرہ مخلوق سے وراء الوراء اور اس سے کہیں اعلیٰ وبالا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اسی لیے سورة نحل کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے آخر میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ (وَاللہُ یَعلَمُ وَاَنتُم لاَتَعلَمُونَ ) ۔ یعنی " اللہ جانتا ہے اور تم لوگ نہیں جانتے " پس اللہ تعالیٰ کو ویسے ہی مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کا رسول بتائے۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ اللہم ربنا ہذہ نواصینا بین یدیک فخذنا بھا الی ما تحب وترضی بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، ولا تکلنا الی انفسنا طرفۃ عین، وکن لنا ولا تکن علینا، واھدنا واھدبنا، ویسر الھدی لنا، انت مولانا علیک توکلنا والیک انبنا والیک المصیر، ولا حول ولا قوۃ الا بک یا ذا الجلال والاکرام یا من بیدہ ملکوت کل شیء وھو یجیر ولا یجار علیہ۔
Top