Tafseer-e-Madani - Hud : 62
قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَاۤ اَتَنْهٰىنَاۤ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَ اِنَّنَا لَفِیْ شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَیْهِ مُرِیْبٍ
قَالُوْا : وہ بولے يٰصٰلِحُ : اے صالح قَدْ كُنْتَ : تو تھا فِيْنَا : ہم میں (ہمارے درمیان) مَرْجُوًّا : مرکز امید قَبْلَ ھٰذَآ : اس سے قبل اَتَنْهٰىنَآ : کیا تو ہمیں منع کرتا ہے اَنْ نَّعْبُدَ : کہ ہم پرستش کریں مَا يَعْبُدُ : اسے جس کی پرستش کرتے تے اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَاِنَّنَا : اور بیشک ہم لَفِيْ شَكٍّ : شک میں ہیں مِّمَّا : اس سے جو تَدْعُوْنَآ : تو ہمیں بلاتا ہے اِلَيْهِ : اس کی طرف مُرِيْبٍ : قوی شبہ میں
اس کے جواب میں ان لوگوں نے کہا اے صالح، تو تو اس سے پہلے ہمارے درمیان امیدوں کا مرکز تھا، کیا تم ہمیں ان چیزوں کی پوجا (و پرستش) سے روکتے ہو جن کی پوجا (و پرستش) ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ؟ بیشک ہم اس دین کے بارے میں ایک بڑے خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں، جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو1
143 ۔ ابنائے دنیا کی مادہ پرستانہ ذہنیت، اور راقم آثم کا خود اپنے متعلق ایک سبق آموز قصہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ قوم ثمود کے سرداروں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ تم تو اس سے پہلے ہماری امیدوں کا مرکز تھے کہ تم کل قوم کی لیڈر شپ سنبھالو گے اور ان کی سیادت و قیادت سے سرفراز ہوؤگے اور ہمارے درمیان بڑا نام پیدا کرو گے۔ مگر تم نے یہ کیا کیا کہ ایک نئی بات کہہ کر اور ہمیں اپنے باپ دادا کے طریقوں سے ہٹانے کا پروگرام پیش کرکے ہماری ان ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ سو قرآن حکیم نے اس کوتاہ نظر انسان کی ایک ایسی نفسیات کی نشاندہی فرمائی ہے جو کہ اس میں ہمیشہ پائی گئی ہے۔ کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ اور اس کا مظاہرہ اپنی کامل شکل میں خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد ﷺ سے بھی ہوا کہ بعثت اور اعلان نبوت سے پہلے جو لوگ آپ کی دیانت و امانت اور صدق و صفا پر متفق اللسان تھے۔ اور آپ کو وہ " صادق " اور " امین " کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے، اعلان نبوت اور پیغام توحید سنانے کے بعد وہ سب کے سب آپ کے مخالف ہوگئے۔ اور انہوں نے آپ کو ساحر، مجنوں اور شاعر وغیرہ کیا کچھ نہیں کہا، اور کون کون سی تکلیف آپ کو نہیں پہنچائی۔ اور یہی حال آج کے ابنائے دنیا کا ہے کہ جو بھی ان کو مادیت اور مادہ پرستی سے متعلق سبز باغ دکھائے وہ ان کے یہاں بڑا لائق، قابل، ہونہار، " مَرجُوًّا " وغیرہ سب کچھ ہے۔ مگر جو ان کو دینداری اور خدا خوفی کی طرف بلائے اور قبر و آخرت اور اپنے دائمی انجام کی یاد دہانی کرائے وہ ان کے یہاں بیکار اور ازکار رفتہ انسان ہے۔ پھر دین کے نام سے بھی ان کو جو کوئی من گھڑت قصے کہانیاں سنائے، من گھڑت افسانے بیان کرے، اور گا گا کر انہیں ڈوڑھے اور مرثیے سنائے وہ ان کے یہاں ٹھیک اور قابل قبول اور لائق اعتناء ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے ان کا کہنا ہوتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے۔ واہ کیا سریلی آواز اور کیسا عمدہ بیان ہے۔ اور کیا دل لگتی باتیں کہتا ہے۔ صلح کل، امن پسند اور سب کو خوش رکھنے والا انسان ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر کوئی قرآن و سنت کی نصوص سنائے اور مسئلہ توحید بیان کرے، کھرے کھوٹے میں تمیز کرنے لگے، حق و باطل کھول کر بیان کرنا چاہے تو اس کی بات کے خلاف چاروں طرف سے قسما قسم کی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں اور طرح طرح کی بہتان بازیاں اور الزام تراشیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ یہ ایسا اور ویسا ہے۔ نیا دین لے کر آگیا۔ بزرگوں کو نہیں مانتا۔ ہمیں اپنے بڑوں اور بزرگوں کے طریقوں سے ہٹاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح جس کسی کی اولاد میں کچھ ذہین اور ہونہار بچے ہوں گے تو وہ ان کو سکولوں کالجوں میں بھیجے گا تاکہ وہ ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بن کر کل دنیا کمانے کے قابل ہوسکیں، اور جو کوئی بچہ کان، آنکھ، ٹانگ، بازو وغیرہ کسی اعتبار سے ناقص اور کمزور و معذور قسم کا ہوگا، اس کو یہ کسی دینی مدرسہ کے حوالے کردے گا۔ الا ماشاء اللہ۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ خود راقم آثم کو اپنے بارے میں یاد ہے اور اچھی طرح یاد ہے کہ مارچ 1957 ء میں جب راقم آثم نے مڈل سکول منگ (جو کہ اب کالج بن چکا ہے) سے بورڈ کے امتحان میں امتیازی پوزیشن میں مڈل پاس کرنے کے بعد انجمن تعلیم القرآن (موجودہ دار العلوم تعلیم القرآن) پلندری میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے داخلہ لیا تو علاوہ کچھ اور لوگوں کے پونچھ کے ہی ایک گریجویٹ صاحب جو کہ مجھے سکول کے دنوں میں جانتے تھے اور میرے بڑے مداح تھے کہ یہ بہت ذہین اور قابل لڑکا ہے۔ تو وہ یہ سننے کے بعد کہ میں اب دینی مدرسہ میں داخل ہوگیا ہوں سخت افسردہ ہوئے۔ اور انہوں نے اس پر بلا اختیار ایک زوردار آہ بھری اور میرے اس فیصلہ اوراقدام پر انہوں نے سخت افسوس کا اظہار کیا۔ تو میں نے ان سے عرض کیا کہ کیوں صاحب ! آپ نے جو اس قدر زوردار آہ بھری اور جو اتنا افسوس کیا تو آخر کیوں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بھئی مولوی کا دنیا میں کیا مقام ہوتا ہے ؟ اس پر میں نے اپنے جذبات اور اپنے اطمینان کے مطابق ان کو جو جواب دینا تھا وہ ان کو دیا مگر وہ اپنی اسی رائے پر قائم تھے۔ سو ان صاحب کو شاید یہ بات اب یاد بھی نہ ہو مگر مجھے آج کم و بیش چالیس سال بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی ان کی وہ آہ اچھی طرح یاد ہے اور ہمیشہ یاد رہے گی۔ مگر حال یہ ہے کہ ان گریجویٹ صاحب کو راقم آثم نے کچھ عرصہ قبل سٹیشزی کی ایک چھوٹی سی دکان پر سکولوں کے لیے کا پیاں، پنسلیں وغیرہ بیچتے خود دیکھا، جبکہ یہ ناچیز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج دوبئی کی مختلف مساجد میں گزشتہ کوئی ستائیس سالوں سے بڑے بڑے حلقہ ہائے درس میں قرآن پاک کی تفسیر روزانہ بیان بھی کرتا ہے اور لکھ بھی رہا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ اس پورے خطے کے کسی بھی فرد کو آج تک نہیں ملا۔ یہ بندہ ناچیز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کم و بیش تین درجن کتابیں بھی لکھ چکا ہے جو کہ اردو اور عربی دونوں زبانوں میں ہیں۔ جن میں سے اکثر چھپ کر ہزاروں کی تعداد میں اندرون ملک اور بیرون ملک خدا ہی جانے کہاں کہاں پہنچ چکی ہیں۔ اور اب یہ بندہ ناچیز قرآن پاک کی تفسیر لکھ رہا ہے۔ فالحمد للہ قبل کل شیء وبعد کل شیء۔ مگر اس سوچ کے لوگوں کو یہ بات سمجھائے کون اور کیسے ؟ فالی اللہ المشتکی۔ 144 ۔ انکار حق کا نتیجہ و اثر خلجان و اضطراب قلب۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ کیا تم ہمیں ان چیزوں کی پوجا و پرستش سے روکتے ہو جن کی پوجا و پرستش ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔ یقینا ہم اس دین کے بارے میں ایک بڑے ہی خلجان انگیز شک میں مبتلا ہیں جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو۔ سو یہ بھی حق کی ایک خاصیت ہے کہ اس کا انکار کرنے کے بعد منکر لوگوں کو امن و سکون نصیب نہیں ہوسکتا بلکہ دلوں میں چھبنے والے شک و اضطراب کے کانٹے ان کو ہمیشہ بےچین رکھتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ مگر ان کی بدنصیبی اور محرومی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ تو اپنی اس بےچینی کی اصل وجہ کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی حق کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ سو ایمان و یقین کی وہ دولت جو انسان کو قدرت کی طرف سے ملتی ہے، بڑی ہی عظیم الشان اور بےمثل دولت ہے، جو انسان کو اخروی زندگی میں جنت کی نعیم مقیم سے سرفراز کرنے سے پہلے اس دنیاوی زندگی میں بھی دولت امن و سکون اور اطمینان قلب سے نوازتی ہے۔ فالحمد للہ۔ سو " شک " کے ساتھ " مریب کی صفت سے ان لوگوں کی اس صفت کو اور زیادہ اجاگر کردیا کہ تمہاری اس دعوت سے ایک طرف تو ہماری امیدوں کو سخت دھچکا لگا کہ ہم نے تمہارے ساتھ کیا کیا امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور تم کیا نکلے اور کیا فتنہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ سو اس چیز نے ہمیں مزید اضطراب اور الجھن میں ڈال دیا۔ سو حق و ہدایت سے محرومی کا نتیجہ قلق و اضطراب۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top