Tafseer-e-Madani - Hud : 67
وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ
وَاَخَذَ : اور آپکڑا الَّذِيْنَ : وہ جو ظَلَمُوا : انہوں نے ظلم کیا (ظالم) الصَّيْحَةُ : چنگھاڑ فَاَصْبَحُوْا : پس انہوں نے صبح کی فِيْ : میں دِيَارِهِمْ : اپنے گھر جٰثِمِيْنَ : اوندھے پڑے رہ گئے
اور دھرلیا ان سب لوگوں کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر ایک ایسی ہولناک آواز نے جس سے وہ سب اپنے گھروں میں (ایسے بےحس و حرکت) اوندھے پڑے رہ گئے تھے
149 ۔ ظلم کا انجام ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخر کار آپکڑا ان کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر ایک نہایت ہولناک آواز سے جس سے وہ سب اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ سو اس سے واضح ہوگیا کہ ظلم پر اڑے رہنے والوں کے لیے دائمی ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ یعنی جو اڑے رہے تکذیب و انکار حق کے جرم پر جو کہ سب سے بڑا جرم اور ظلم عظیم ہے۔ سو اس سے توبہ و رجوع کرنے کی بجائے اس پر اڑے اور ڈٹے رہنا ایسا سنگین اور ہولناک جرم ہے جس کا آخری انجام ہمیشہ کی ہلاکت و تباہی ہے، جیسا کہ قوم ثمود سے ہوا کہ ایک ہولناک آواز سے ان کے دل پھٹ گئے اور یہ ہمیشہ کے لیے مٹ گئے۔ سو ظلم پر اڑے رہنے والوں کے لیے بہرحال دائمی ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایسوں کو قدرت کی طرف سے جو مہلت اور ڈھیل ملتی ہے اس سے ان کو کبھی بھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے۔ سو مہلت بہرحال ایک مہلت ہی ہوتی ہے جو کہ ایک محدود وقت تک ہی کے لیے ہے جس کے بعد اس نے بہرحال ختم ہوجانا ہوتا ہے اور اس کے بعد ظالم بہرحال اپنے انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top