Tafseer-e-Madani - Hud : 73
قَالُوْۤا اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَیْكُمْ اَهْلَ الْبَیْتِ١ؕ اِنَّهٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَتَعْجَبِيْنَ : کیا تو تعجب کرتی ہے مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم رَحْمَتُ اللّٰهِ : اللہ کی رحمت وَبَرَكٰتُهٗ : اور اس کی برکتیں عَلَيْكُمْ : تم پر اَهْلَ الْبَيْتِ : اے گھر والو اِنَّهٗ : بیشک وہ حَمِيْدٌ : خوبیوں والا مَّجِيْدٌ : بزرگی والا
فرشتوں نے کہا کیا تم تعجب کرتی ہو اللہ کے حکم سے ؟ حالانکہ اللہ کی رحمت اور اس کی (طرح طرح کی) برکتیں تم پر، اے نبی کے گھر والو، (برابر برستی) رہتی ہیں، بلاشبہ وہ تعریف کے لائق اور بڑی ہی اونچی شان والا ہے،5
157 ۔ کسی کے اہل بیت اصل میں اس کی بیوی ہی ہوتی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فرشتوں نے حضرت سارہ کے تعجب کے جواب میں ان سے کہا کہ کیا تم اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہو حالانکہ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں تم پر اے نبی کے گھر والو برابر برستی رہتی ہیں۔ سو یہ بھی مزید ایک کرامت و رحمت ہے جو اس کی طرف سے تمہیں نصیب ہو رہی ہے۔ پس تمہیں اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کی گھر والی ہی اس کی اصل اہل بیت ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہاں " اہل البیت " کا مصداق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی ہی ہیں۔ پس اس سے ہمارے حضور ﷺ کی ازواج مطہرات سے دشمنی رکھنے والے ان روافض کے منہ پر بھی ایک بھرپور تھپڑ رسید ہوتا ہے جو ان کو اہل بیت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف حضرت ابراہیم کی اہلیہ کو بتایا گیا کہ جب تم اہل بیت پر حق تعالیٰ کی رحمتیں، برکتیں اور عنایتیں ہمیشہ اور لگاتار ہوتی رہتی ہیں تو پھر تمہیں اس رحمت و برکت پر تعجب کیونکر ہوسکتا ہے ؟ یعنی ایسے میں آپ کو بچے کی اس نئی خوشخبری پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔ اور تمہارے خالق ومالک جو کہ قادر مطلق ہے کے لیے اس طرح ظاہری اسباب کے خلاف بچے سے نوازنا کچھ مشکل نہیں کہ اس کی شان علی کل شیء قدیر کی شان ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف فرشتوں نے حضرت سارہ کے اس تعجب کے جواب میں پورے ادب و احترام کے ساتھ کہا کہ نبی کی اہل بیت ہونے کے اعتبار سے آپ کے لیے تعجب کی گنجائش کس طرح ہوسکتی ہے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں آپ پر دن رات برستی رہتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں سے متعلق سب سے آگاہی آپ کو ہوسکتی ہے۔
Top