Tafseer-e-Madani - Hud : 76
یٰۤاِبْرٰهِیْمُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَا١ۚ اِنَّهٗ قَدْ جَآءَ اَمْرُ رَبِّكَ١ۚ وَ اِنَّهُمْ اٰتِیْهِمْ عَذَابٌ غَیْرُ مَرْدُوْدٍ
يٰٓاِبْرٰهِيْمُ : اے ابراہیم اَعْرِضْ : اعراض کر عَنْ ھٰذَا : اس سے اِنَّهٗ : بیشک یہ قَدْ جَآءَ : آچکا اَمْرُ رَبِّكَ : تیرے رب کا حکم وَاِنَّهُمْ : اور بیشک ان اٰتِيْهِمْ : ان پر آگیا عَذَابٌ : عذاب غَيْرُ مَرْدُوْدٍ : نہ ٹلایا جانے والا
(فرشتوں نے ان سے کہا) اے ابراہیم، اب جانے دو اس قصے کو، کہ اب بہرحال آکر رہنا ہے ان لوگوں پر ایک ایسے ہولناک عذاب نے جس کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں،1
158 ۔ اللہ کے عذاب کو کوئی بھی نہیں ٹال سکتا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ ابراہیم اب جانے دو اس قصے کو کہ اب بہرحال آکر رہنا ہے ان لوگوں پر ایک ایسے ہولناک عذاب نے جس کے ٹلنے کی اب کوئی صورت نہیں۔ کہ اللہ پاک کی طرف سے طے شدہ کسی امر کو کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ اور جب ابو الانبیاء جد الانبیاء افضل الانبیاء بعد نبینا محمد حضرت ابراہیم خلیل۔ علیہما الصلوۃ والسلام۔ بھی اللہ کے حکم کو ٹالنے کے مجاز نہیں تو پھر اور کس کی یہ شان ہوسکتی ہے کہ وہ ایسے کرسکے ؟ پس غلط اور مردود ہے وہ کچھ جو کہ فرزندان شرک و بدعت کہتے ہیں کہ ولی اور بزرگ سب کچھ کرا سکتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ کمان سے نکلا ہوا تیر بھی واپس لاسکتے ہیں وغیرہ۔ کیونکہ کوئی ولی اور بزرگ خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ کسی نبی کے مرتبہ و مقام کو بہرحال نہیں پہنچ سکتا۔ اور جب اس طرح کے اختیارات کسی نبی اور پیغمبر کو بھی حاصل نہیں تو پھر اور کسی کو کس طرح حاصل ہوسکتے ہیں ؟ سو اختیار سب کا سب اللہ پاک ہی کے قبضہ وقدرت و اختیار میں ہے کہ وہی وحدہ لاشریک مالک مطلق اور مختار کل ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف اللہ کے عذاب کو ٹالنے کی سکت و طاقت کسی میں بھی نہیں ہوسکتی۔ سو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتایا گیا کہ اب ان لوگوں سے عذاب کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں۔
Top