Tafseer-e-Madani - Hud : 78
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ١ؕ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ١ؕ اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
وَجَآءَهٗ : اور اس کے پاس آئی قَوْمُهٗ : اس کی قوم يُهْرَعُوْنَ : دوڑتی ہوئی اِلَيْهِ : اس کی طرف وَ : اور مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے السَّيِّاٰتِ : برے کام قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنَاتِيْ : میری بیٹیاں هُنَّ : یہ اَطْهَرُ : نہایت پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَا تُخْزُوْنِ : نہ رسوا کرو مجھے فِيْ ضَيْفِيْ : میرے مہمانوں میں اَلَيْسَ : کیا نہیں مِنْكُمْ : تم سے (تم میں) رَجُلٌ : ایک آدمی رَّشِيْدٌ : نیک چلن
اور آپہنچے ان کی قوم کے (بداطوار) لوگ دوڑتے ہوئے رسیاں توڑ کر، اور وہ پہلے سے ہی ارتکاب کرتے تھے ایسی برائیوں کا، تو لوط نے (ان سے) کہا اے میری قوم (کے لوگو ! ) یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، جو تمہارے لئے ہر لحاظ سے پاکیزہ ہیں پس تم ڈرو اللہ سے، اور مجھے رسوا مت کرو میرے مہمانوں کے بارے میں، کیا تم میں کوئی بھی بھلا آدمی نہیں ؟3
160 ۔ قوم لوط کا عمل بد اور دور حاضر کے ایک جمہوری ملک کا حیا باختہ کردار : سو ارشاد فرمایا گیا کہ پہنچے ان کے پاس ان کی قوم کے بد اطوار لوگ رسیاں توڑ کر۔ اور وہ پہلے سے ہی برائیاں کرتے آرہے تھے کہ ان میں یہ خبیث مرض موجود تھا کہ مرد مرد سے بدکاری کرتا تھا۔ اور یہ ایسا قبیح اور خلاف وضع فطرت فعل تھا کہ شرافت کی زبان پر اس کو لانا اور بیان کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن حکیم میں اس کی تصریح کئے بغیر اس کو (السیات) کے عمومی اور کنائی لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ مگر دور حاضر میں جمہوریت کے بت نو کے ایک پجاری اور جمہوریت کے چمپئن کہلانے والے ملک برطانیہ نے کچھ ہی سال قبل اس خلاف وضع فطری فعل کو قانونی جواز فراہم کرنے لیے ایک باقاعدہ بل اپنی پارلیمنٹ میں پیش کیا اور تالیوں کی گونج میں اس کو بھاری اکثریت سے پاس بھی کرلیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر اہواء اغراض اور خواہشات نفس کے پیچھے چلنے والے لوگ کس قدر حیا باختہ اور کتنے بےشرم ہوجاتے ہیں کہ جس بات کو زبان پر لانا بھی شریف انسان کے لیے مشکل ہے اس کو ایک جمہوری ملک میں تالیوں کی گونج میں اپنی پارلیمنٹ سے پاس کرا کر قانون کا درجہ دے دیتا ہے۔ ببیں تفاوت از کجا ست تا بکجا ؟ خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے آمین ثم آمین۔ 161 ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑنے والی اپیل : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ان بدبختوں سے کہا کہ یہ میری بیٹیاں موجود ہیں جو تمہارے لیے بڑی پاکیزہ ہیں۔ یعنی تمہاری وہ بیویاں جو تمہارے گھروں میں ہیں اور شہر کی وہ عورتیں جو شادی کے قابل ہیں اور جن کو قدرت نے پیدا ہی اس غرض کے لیے فرمایا ہے۔ (قالہ مجاہد و سعید بن جبیر وغیرہ) اور نبی چونکہ اپنی امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اس لیے آپ نے ان کو اپنی بیٹیاں قرار دیا (ابن جریر، ابن کثیر، الصفوۃ، الکبیر اور المراغی وغیرہ) اور یہ قول اس لئے بھی راجح قرار پاتا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی تورات وغیرہ کی تصریح کے مطابق اپنی صرف دو بیٹیاں تھیں جبکہ یہاں پر (بنات) فرمایا گیا ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے۔ اور یوں بھی دو بیٹیوں کو اتنے لوگوں کے نکاح میں دینے کا کوئی امکان نہیں۔ اور اس طرح اس بات کی کوئی تک ہی نہیں بنتی کہ اس سے آپ کی صلبی بیٹیاں مراد ہوں۔ اس لئے ثقہ مفسرین کرام کے نزدیک راجح قول اوپر والا قول ہی ہے کہ (بناتی) کا لفظ یہاں مجاز پر محمول ہے۔ یعنی اس سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں جو کہ پیغمبر کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں جبکہ بعض حضرات مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے آنجناب کی صلبی بیٹیاں مراد ہیں۔ بہرکیف اس سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی کمال بےبسی کا پتہ چلتا ہے جس سے ان لوگوں کی گمراہی آشکارا ہوجاتی ہے جو کہتے ہیں کہ پیغمبر مختار کل اور عالم غیب ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اگر یہ بات ہوتی تو حضرت لوط (علیہ السلام) اس درجہ تشویش و اضطراب میں مبتلا نہ ہوتے۔ بلکہ وہ پوری طرح مطمئن ہوتے کہ یہ تو فرشتے ہیں۔ 162 ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی طرف سے ان لوگوں کے دلوں پر ایک دستک : سو حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان لوگوں کے دلوں پر دستک دیتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم لوگ اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا مت کرو۔ کیا تمہارے اندر کوئی بھی بھلا انسان نہیں ؟ جو کسی قدر شرافت و انسانیت سے کام لے۔ میری اس نازک پوزیشن پر رحم کھائے اور مجھے میرے ان معزز مہمانوں کے بارے میں رسوا و پریشان نہ کرے۔ یہ سوال و ارشاد انسانی عقل و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دینے والا ہے۔ مگر جب عقلیں ہوا و ہوس کے اندھیروں میں ڈوب کر ماؤف ہوچکی ہوں اور دلوں پر خواہشات و خرمستی کی ظلمتیں چھا چکی ہوں اور ان پر کفر و انکار کے بھاری بھرکم تالے پڑچکے ہوں تو ایسے میں ایسی آوازوں کا ایسے لوگوں پر کیا اثر ہوسکتا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور یہی نتیجہ و انجام ہوتا ہے خواہشات نفس کو اپنا معبود اور قبلہ بنا دینے کا کہ اس کے بعد انسان کے دل و دماغ پر نصیحت و خیر خواہی کی کوئی بات اثر نہیں کرتی اور ایسے لوگ بالآخر اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں۔ سو نور وحی سے محرومی دارین کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top