Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Madani - Hud : 7
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا١ؕ وَ لَئِنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ
وَهُوَ
: اور وہی
الَّذِيْ
: جو۔ جس
خَلَقَ
: پیدا کیا اس نے
السَّمٰوٰتِ
: آسمان (جمع)
وَالْاَرْضَ
: اور زمین
فِيْ
: میں
سِتَّةِ اَيَّامٍ
: چھ دن
وَّكَانَ
: اور تھا
عَرْشُهٗ
: اس کا عرش
عَلَي الْمَآءِ
: پانی پر
لِيَبْلُوَكُمْ
: تاکہ تمہیں آزمائے
اَيُّكُمْ
: تم میں کون
اَحْسَنُ
: بہتر
عَمَلًا
: عمل میں
وَلَئِنْ
: اور اگر
قُلْتَ
: آپ کہیں
اِنَّكُمْ
: کہ تم
مَّبْعُوْثُوْنَ
: اٹھائے جاؤگے
مِنْۢ بَعْدِ
: بعد
الْمَوْتِ
: موت۔ مرنا
لَيَقُوْلَنَّ
: تو ضرور کہیں گے وہ
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
كَفَرُوْٓا
: انہوں نے کفر کیا (کافر)
اِنْ ھٰذَآ
: نہیں یہ
اِلَّا
: مگر (صرف)
سِحْرٌ
: جادو
مُّبِيْنٌ
: کھلا
اور وہ (اللہ) وہی ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کو چھ دنوں میں، اور (اس سے پہلے) اس کا عرش پانی پر تھا، 2 (اور اس نے یہ سب کچھ پیدا اس لئے فرمایا کہ) تاکہ وہ تمہاری آزمائش کرے، کہ تم میں کس کا کام سب سے اچھا ہے، 3 اور اگر آپ ﷺ (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے) کہیں کہ تم سب یقیناً دوبارہ اٹھائے جاؤ گے اپنے مرنے کے بعد، تو فوراً بول اٹھتے ہیں یہ کافر لوگ کہ یہ (قرآن) تو محض ایک جادو ہے کھلم کھلا،
18 ۔ تخلیق کائنات کے دنوں سے مراد ؟: سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ وہی ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس حکمتوں بھری کائنات) کو چھ دنوں میں۔ یعنی اللہ۔ جل شانہ۔ کی شان کے دنوں کے اعتبار سے جو کہ دراصل کنایہ ہے چھ مختلف ادوار سے نہ کہ ہمارے ان دنوں کے اعتبار سے جن کو ہم دیکھتے اور جانتے ہیں۔ جو کہ اس زمین و آسمان میں اور سورج کے طلوع و غروب کے اعتبار سے بنتے ہیں۔ اور جب آسمان و زمین کی اس کائنات کی تخلیق سے پہلے طلوع و غروب کا یہ نظام سرے سے تھا ہی نہیں تو ظاہر ہے کہ ایسے میں ان چھ دنوں سے مراد ہمارے یہاں کے یہ مشہور و معروف چھ دن نہیں ہوسکتے۔ سو ان چھ دنوں سے مراد خدائی چھ دن ہیں اور وہ مختلف ادوار واطوار ہیں جن میں اس کائنات کی انشاء وتکوین کا یہ حکمتوں بھرا نظام تکمیل پذیر ہوا اور اللہ پاک۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ کے یہاں کا ایک دن تو ہمارے یہاں کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ( ۭ وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) (الحج :47) پس ان چھ دنوں کو اپنے دنیاوی دنوں کے اعتبار سے دیکھنا صحیح نہیں۔ (المراغی، المنار وغیرہ) سو اس سے یہ درس عظیم ملتا ہے کہ یہ کارخانہ قدرت کوئی بازیچہ اطفال نہیں جو یونہی بن گیا ہو اور یونہی ختم ہوجائے۔ بلکہ یہ نہایت ہی پر حکمت اور بامقصد تخلیق ہے جس کو نہایت ہی عظیم الشان مقاصد کے لیے خاص اہتمام کے ساتھ وجود میں لایا گیا ہے۔ اور انسان جو اس کائنات ہست و بود میں گل سرسبد کی حیثیت رکھتا ہے اور جو کہ اس کی گوناگوں نعمتوں اور دوسری بےحد و حساب مخلوق سے طرح طرح سے مستفید و فیضاب ہو رہا ہے اور جو کہ ان سب کے مخدوم ومطاع کی حیثیت رکھتا ہے وہ کوئی شتر بےمہار نہیں کہ اس کائنات کی ان بےحد و حساب نعمتوں سے طرح طرح مستفید ہوتا رہے اور کھاتا پیتا اور عیش و عشرت کرتا رہے۔ اور پھر یوں ہی مر مٹ کر ختم ہوجائے، نہ اس سے ان نعمتوں کے بارے میں کوئی پوچھ ہو نہ کوئی حساب کتاب۔ نہ کسی کو اس کی اچھائی کا صلہ ملے اور نہ کسی کو اس کی برائی کی سزا۔ اگر ایسے ہو تو پھر اس ساری کائنات کی اور اس کے مخدوم ومطاع حضرت انسان کی تخلیق و پیدائش کا یہ سب سلسلہ عبث و بیکار قرار پاتا ہے جو کہ حضرت خالق۔ جل مجدہ۔ کی رحمت بےنہایت اور حکمت بےغایت کے سراسر خلاف ہے۔ (فَتَعَالَی اللہُ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا) ۔ سو حکمتوں اور نعمتوں بھری اس عظیم الشان کائنات کی تخلیق کا اصل اور سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ کائنات کی اس کھلی کتاب کو دیکھ کر انسان اپنے خالق ومالک کو پہچانے۔ اس کی معرفت کے شرف سے مشرف ہو اور صدق دل سے اس منعم حقیقی کے آگے جھک جائے تاکہ اس طرح وہ ابدی زندگی کی حقیقی سعادتوں اور کامرانیوں سے بہرہ ور و سرفراز ہوسکے۔ ورنہ اپنے کئے کی پاداش میں ابدی ہلاکت کے گڑھے میں گر کر اپنے اس انجام کو پہنچ کر رہے جس کا حقدار اس نے اپنے آپ کو خود بنا لیا ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے اور تخلیق کائنات کے اصل مقاصد پورے ہو کر رہیں جیسا کہ یہاں پر بھی اس کی تصریح فرمائی جارہی ہے (لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) ۔ یعنی تاکہ اس طرح وہ تمہاری آزمائش کرے اور دیکھے کہ تم میں سب سے اچھا عمل کس کا ہے ؟ سبحانہ وتعالیٰ ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ 19 ۔ عرش الہی کے پانی پر ہونے کا مطلب ؟: سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اس کا عرش پانی پر تھا " یعنی اس کے اور پانی کے درمیان کسی اور چیز کا فاصلہ نہیں تھا۔ یہ نہیں کہ عرش پانی کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ (المحاسن الکشاف وغیرہ) باقی عرش خداوندی عالم غیب کے ان حقائق میں سے ہے جن کی پوری حقیقت کا ادراک و احاطہ ہمارے بس سے باہر ہے ہم بس اس پر اسی طرح ایمان رکھتے ہیں جس طرح کہ نصوص قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ کما ھو طریق سلفنا الصالح۔ علیہم الرحمۃ والرضوان۔ سو اس کی یہ شکل بہرحال نہیں تھی کہ عرش الہی اسی طرح پانی پر قائم اور موجود تھا جس طرح کہ کشتی پانی کے اوپر ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی اوپر گزرا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پہلے عرش کے نیچے کچھ نہیں تھا سوائے پانی کے جو کہ ہر مخلوق کی اصل ہے۔ جس کو علمائے فلکیات۔ " سدیم " سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کو قرآن کی زبان میں " دخان " کہا گیا ہے۔ سو اس کرہ ارضی کی خشکی کے نمودار ہونے سے پہلے یہ سارا کرہ مائی تھا۔ اور اسی پر اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد اور اس کی تکوین و تخلیق سے پانی کا یہی جوہر حیات کچھ آسمان کی شکل میں ظاہر ہوا اور کچھ زمین کی شکل میں۔ ورنہ اس سے پہلے یہ ایک ہی مادے کی شکل میں تھا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا (اَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ۭ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ ) ۔ (الانبیاء : 30) سو جو خداوند قدوس اس قدرت اور ایسی شان کا مالک ہے وہی معبود برحق ہے اور جب اس کی اس تکوین و تخلیق میں کوئی اس کا شریک نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ اور جو ایسی قدرت بےپایاں اور حکمت بےنہایت کا مالک ہے وہ اس کائنات کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے کہ دوبارہ پیدا کرنا تو نسبۃ آسان ہوتا ہے۔ (سبحانہ وتعالیٰ ۔ (المنار، المراغی اور تدبر وغیرہ) ۔ سو کائنات کہ یہ کھلی کتاب ایک عظیم الشان کتاب ہے، مگر غفلت کا کیا جائے ؟ 20 ۔ تخلیق کائنات برائے ابتلاء و آزمائش : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ آسمان و زمین کی اس کائنات کو اس کے اندر جو کچھ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے پیدا فرمایا کہ وہ تمہاری آزمائش کرے کہ آسمان و زمین کی اس کائنات میں قدرت کی ودیعت فرمودہ طرح طرح کی اور بےحد و حساب نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر تم لوگ اپنی مرضی و ارادہ سے کونسا راستہ اختیار کرتے ہو۔ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی اور اس کی رضا و خوشنودی والا راستہ، جو کہ ذرعیہ ہے دائمی و ابدی سعادتوں کا یا اس کے برعکس اپنی اھواء و اغراض اور خواہشات نفس پیروی کا راستہ جو کہ باعث ہے دائمی شقاوت و بدبختی کا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اس حکمتوں اور نعمتوں بھری کائنات کو اس لیے پیدا فرمایا گیا کہ انسان اس کے اندر غور و فکر سے کام لے کر اپنے خالق ومالک کی معرفت سے سرشار ہو اور دل و جان سے اس کے آگے جھک جائے اور اس کی رضاء و خوشنودی کے لیے اچھے سے اچھا عمل کرے۔ اور اچھے کام یعنی " احسن عمل " کے لیے دو بنیادی باتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک اخلاص اور دوسری اتباع یعنی جو کام کرے وہ خالص اس کی رضا کے لیے کرے۔ اس میں دوسری کسی غرض کا کوئی شائبہ شامل نہ ہو اور کرے بھی دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق۔ سو ایسی صورت میں انسان کو تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا کہ تم اپنے دین کو خالص کرو۔ تمہیں تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔ " اخلص دینک یکفیک العمل القلیل " (الترغیب والترہیب جلد : 1 صفحہ 54) یعنی تم اپنے دین میں اخلاص پیدا کرو، پھر تم کو تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔ سو یہ مطلب ہے آسمانوں اور زمین کی اس کائنات کو ابتلاء آزمائش کے لیے پیدا کرنے کا (روح المعانی وغیرہ) ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔ 21 ۔ بعث بعد الموت کی ضرورت : سو بعث بعد الموت ضروری ہے تاکہ اس عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور علیٰ وجہ التمام والکمال پورے ہوں۔ اور تاکہ اس طرح تم اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ اور بدلہ پاسکو اور عدل و انصاف کے تقاضے اپنی کامل اور آخری شکل میں پورے ہوسکیں جس کے نتیجے میں نیک بخت اور سعادت مند لوگ جنت کی ابدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہوسکیں اور سرکش و نافرمان اپنے کیے کرائے کا بھگتان بھگتیں اور دائمی عذاب میں مبتلا ہو کر رہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو بعث بعد الموت عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے لیکن ہٹ دھرم لوگ اس کو نہیں مانتے کیونکہ حیات بعد الموت کے بغیر اس دنیا جہاں کا وجود عبث اور باطل و بیکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسی لیے سورة آل عمران کی آیت نمبر 191 میں الوا الالباب کی صفت اور ان کی شان کے ذکر وبیان کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا کہ وہ کائنات میں غور و فکر کے نتیجے میں پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ باطل اور بیکار نہیں پیدا فرمایا۔ تیری شان اس سے پاک ہے کہ تو ایسا بیکار کام کرے۔ پس تو اے ہمارے مالک دوزخ کی آگ سے بچا لے۔ (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ ) ۔ (آل عمران : 191) یعنی اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ بیکار پیدا نہیں کیا تو پاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ 22 ۔ منکر انسان کی محرومی کا ایک مظہر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا تو یہ کافر لوگ کہتے ہیں۔ کہ یہ تو ایک جادو ہے کھلم کھلا۔ سو بعث بعد الموت کی اس اہم حقیقت کو تسلیم کرنے کی بجائے یہ لوگ اس کو جادو قرار دے رہے ہیں کہ حقیقت تو ان باتوں کی کچھ نہیں، مگر اس کلام کا زور ایسا ہے کہ یہ دل و دماغ پر جادو کا اثر کرتا ہے، سو یہ بدبخت اور محروم انسان کی بدبختی اور محرومی کا ایک کھلا مظہر ہے کہ قرآن حکیم کی بیان کردہ حقیقتوں کی صداقت اور اس کی قوت تاثیر کو یہ لوگ خود محسوس اور تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن آگے اس کو کلام حق تسلیم کرنے کی بجائے اس کو جادو کا اثر اور زور قرار دیتے ہیں۔ بھلا کبھی جادوگر بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ؟ سو یہ منکرین کی محرومی اور ہٹ دھرمی کا کھلا ثبوت ہے۔ حالانکہ بعث بعد الموت ایک ایسی اہم اور بنیادی حقیقت ہے جو عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے اور جس کا اعلان و اظہار یہ کائنات پوری اپنی زبان حال سے خود کر رہی ہے۔ اسی لیے اولوا الالباب اس میں غور و فکر کرنے کے بعد فورا اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے اس کائنات کو عبث و بیکار پیدا نہیں کیا۔ جیسا کہ ابھی اوپر والے حاشیے میں گزرا۔ مگر ان منکرین کی ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ ان کو جب اس حقیقت سے آگاہ کیا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے کھلم کھلا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔
Top