Tafseer-e-Madani - Hud : 83
مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠   ۧ
مُّسَوَّمَةً : نشان کیے ہوئے عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے پاس وَمَا : اور نہیں ھِيَ : یہ مِنَ : سے الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع) بِبَعِيْدٍ : کچھ دور
جن پر خاص نشان لگے ہوئے تھے تمہارے رب کے یہاں سے، اور وہ بستیاں (دور حاضر کے) ان ظالموں سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں،3
167 ۔ قوم لوط کے عذاب کے لیے خاص نشان زدہ پتھر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب آپہنچا ہمارا حکم تو ہم نے تلپٹ کردیا ان بستیوں کو اور تابڑ توڑ برسائے ان پر کھنگر کے ایسے پتھر جن پر خاص نشان لگے ہوئے تھے تمہارے رب کی طرف سے۔ اور وہ بستیاں کچھ زیادہ دور نہیں دور حاضر کے ان ظالموں سے۔ سو ان پر برسائے جانے والے ان پتھروں پر خاص نشان لگے ہوئے تھے۔ کہ فلاں پتھر سے فلاں کافر کا کام تمام کیا جائے تاکہ وہ انہی کو لگیں جو ان کے حق دار تھے۔ نیز یہ کہ وہ پتھر عام زمینی پتھروں سے الگ اور خاص قسم کی امتیازی شکل والے پتھر تھے جو اس مجرم قوم کے لیے بطور خاص تیار کئے گئے تھے۔ (قرطبی، مراغی، وغیرہ) سو ان پتھروں کی حیثیت ایسی ہی ہوگی جیسا کہ دور حاضر کے مختلف اسلحہ کی ہوتی ہے کہ ہر ایک کی ساخت الگ، غرض الگ اور ہدف و مقصد الگ وغیرہ وغیرہ۔ سو وہ پتھر تمہارے رب کے علم اور اس کی قدرت میں پہلے سے مقرر تھے اور ان پر خاص نشان لگا دیے گئے تھے کہ ان کو ظالم اور بدبخت قوم پر برسایا جائے گا اور سنگ گل (سجیل) کے یہ پتھر ان ظالموں سے کچھ دور بھی نہ تھے کہ ان کو وہاں سے اٹھا کر لانے میں کچھ وقت لگتا۔ نیز ان بدبختوں کی یہ تباہ حال بستیاں دور حاضر کے ان منکروں سے بھی کچھ دور نہیں اور وہ اپنی زبان حال سے پکار کر سب کو دعوت غور و فکر دے رہی ہیں سو (وماھی) میں ضمیر " ھی " کے مرجع میں دو احتمال ہیں۔ یعنی الحجارۃ اور السری اور یہ دونوں صحیح اور درست ہیں اور حضرات اہل علم سے یہ دونوں ہی مروی و منقول ہیں (محاسن التاویل، فتح القدیر، قرطبی، مراغی اور صفوۃ وغیرہ)
Top