Tafseer-e-Madani - Hud : 85
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اَوْفُوا : پورا کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف سے وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی چیزیں وَلَا تَعْثَوْا : اور نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے
اور اے میری قوم کے لوگوں ! پورا کرو تم ناپ اور تول کو انصاف کے ساتھ، اور کم کر کے مت دو تم لوگوں کو ان کی چیزیں، اور مت پھرو تم لوگ (اللہ کی) زمین میں فساد مچاتے ہوئے،
171 ۔ لوگوں کی چیزوں کو کم کرنے کی ممانعت : سو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ تم لوگ ناپ تول کو پورا کرو انصاف کے ساتھ اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے نہ دو ۔ یعنی ان کے حقوق خواہ وہ حسی ہوں یا معنوی۔ افراد کے ہوں یا گروہوں، قوموں اور نسلوں کے (المراغی، الصفوۃ وغیرہ) ۔ سو جس کا جو حق بنتا ہو وہ اس کو پورا پورا ادا کرو خواہ اس کا تعلق کیل سے ہو یا وزن سے یا عدد سے یا کسی اور اعتبار سے (اشیاءھم) کا عموم ان سب ہی صورتوں اور شکلوں کو عام اور شامل ہے۔ اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی دینی تعلیم کا ایک نہایت ہی اہم حصہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ قسط کے معنی عدل و انصاف کے ہیں۔ سو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ تم لوگ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کو ان کے حقوق دو اور ان کی چیزوں میں کسی طرح کی کمی مت کرو اور جس کا جو حق بنتا ہے وہ پورے کا پورا اس کو دیا کرو۔ سو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کے بنیادی عنصر دو ہیں۔ ایک تو توحید خداوندی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کہ یہ حضرت حق جل مجدہ کا حق ہے جو کہ بندے پر عائد اور واجب ہونے والا سب سے پہلا، سب سے مقدم اور سب سے اہم اور بنیادی حق ہے۔ اور دوسرا عنصر آنجناب کی دعوت و تبلیغ کا یہ تھا کہ لوگوں کو ان کے حق پورے پورے دو جو کہ خلاصہ ہے بنیادی حقوق العباد کا۔ اور توحید کی ضد شرک ہے اور عدل و قسط کی ضد ظلم اور حق تلفی ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ توحید اور عدل و قسط اصل اور اساس ہے تمام تر اصلاح کی، اور انہی دو بنیادی امور پر دارین کی سعادت و سرخروئی کا مدارو انحصار ہے۔ اور اس کے برعکس شرک اور ظلم جڑ بنیاد ہے تمام شر و فساد کی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین۔ 172 ۔ فساد فی الارض کی ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اور مت پھرو تم لوگ اللہ کی زمین میں فساد مچاتے ہوئے۔ اپنی بےدینی اور ان بدکرداریوں کے ذریعے جو کہ فتنہ و فساد کا مصدر و منبع ہیں کہ اس سے اخلاق تباہ ہوتے ہیں۔ معاشرے کا امن و سکون خراب ہوتا ہے اور نظام زندگی میں خلل اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کہ راہ حق سے اعراض و انحراف جڑ بنیاد ہے سب خرابیوں اور بربادیوں کی۔ جیسا کہ آج ہم اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دنیا ساری میں اور خود ہمارے اپنے ملک کے اندر جو کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا اور جس کو " اسلامی جمہوریہ " کہا جاتا ہے اس میں فتنہ و فساد، قتل و خونریزی، چوری و ڈکیتی، دنگے و فساد، لڑائیاں جھگڑے، گالی گلوچ، سر پھٹول وغیرہ کا دور دورہ ہے اور ان بد عملیوں کے نتیجے میں سیلاب و زلزلے، طوفان و آندھیاں اور قحط سالیاں اور کافروں اور مشرکوں کا تسلط وغیرہ وغیرہ کیا کیا عذاب ہیں جو ہم پر نازل اور مسلط ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں، مگر دنیا ہے کہ فساد کی اس اصل جڑ کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہی۔ فالی اللہ المشتکی، وانا للہ وانا الیہ راجعون۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان لوگوں کو فساد فی الارض سے روکا اور منع فرمایا کہ یہ سب کچھ ہلاکت و تباہی کا باعث ہے، اور فساد فی الارض کی جڑ بنیاد اور حضرت حق جل مجدہ کے دین سے منہ موڑنا اور اس کے اوامرو ارشادات سے اعراض و انحراف ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ کتنے ہی بلند بانگ دعوے کیوں نہ کرتے ہوں۔ کہ اس کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی اور ابدی خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہم فخذ بنواصینا الی مافیہ حبک والرضا بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ وانت العزیز الوھاب۔
Top