Tafseer-e-Madani - Hud : 86
بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ١ۚ۬ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ
بَقِيَّتُ : بچا ہوا اللّٰهِ : اللہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے وَ : اور مَآ : نہیں اَنَا : میں عَلَيْكُمْ : تم پر بِحَفِيْظٍ : نگہبان
اللہ کی دی ہوئی بچت تمہارے لئے بہرحال بہتر ہے، اگر تم ایماندار ہو، اور میں تم پر کوئی نگران کار نہیں ہوں،
173 ۔ حلال کمائی باعث خیر و برکت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے مزید فرمایا کہ اللہ کی بخشی ہوئی بچت تمہارے لیے بہرحال بہتر ہے کہ خیر و برکت بہرحال اسی میں ہے جو حلال اور پاکیزہ ہو، اور یہ اللہ پاک کا ایک محیر العقول اور پر حکمت نظام ہے جس میں غور و فکر کا بڑا سامان ہے، چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بکری سال میں ایک دو بچے دیتی ہے۔ پھر بھی بکریوں کے ہر جگہ ریوڑوں کے ریوڑ ملیں گے جبکہ اس کے مقابلے میں ایک بلی اور کتیا سال میں پانچ چھ بچے دیتی ہے یا اس سے بھی زیادہ۔ اور ان کے کاٹنے ذبح کرنے کا بھی کوئی سوال نہیں۔ مگر اس کے باوجود کتوں بلوں کے اتنے بڑے ریوڑ ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکیں گے۔ اس کی توجہیہ اس کے سوا آپ اور کیا کرسکتے ہیں کہ یہ سب کچھ اس قادر مطلق کے حکمتوں بھرے نظام کا ایک عظیم الشان مظہر ہے کہ وہ اپنے بندوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے ان کو حق و حلال چیزوں میں برکت و کثرت اور بہتات سے نوازتا ہے اور ان میں ان کے لئے برکتوں پر برکتیں رکھ دیتا ہے۔ اور اس کے برعکس جو چیز حضرت انسان کی ضرورت میں کام آنے والی نہیں ہوتی اور وہ حلال اور پاکیزہ نہیں ہوتی اس کو وہ برکت سے محروم کرکے اس کو مٹاتا اور تلف کرتا جاتا ہے۔ فسبحان اللہ جلت قدرتہ وعمت رحمتہ وحکمتہ۔ سو برکت ایک عظیم الشان لفظ اور وسیع الاطراف مفہوم ہے اور یہ چیز اللہ کے دیئے ہوئے حلال رزق کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔ اس لیے تم لوگ حرام سے بچو اور اللہ کی بخشی ہوئی بچت اور رزق حلال ہی پر اکتفاء کرو۔ وباللہ التوفیق۔ بہرکیف بقیۃ اللہ (اللہ کی بچت) سے مراد وہ جائز نفع ہے جو حلال اور جائز تجارت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور حقوق واجبہ ادا کرنے کے بعد انسان کے پاس بچتا ہے۔ پس تاجر کو اپنے اس کاروبار میں جائز حدود کی پابندی کرنی چاہئے اور ناجائز ذرائع سے بچنا چاہئے اور اس کے مال میں اللہ اور اس کے بندوں کے جو حقوق بنتے ہوں ان کو بلا کم وکاست ادا کرنا چاہئے کہ اس طرح سے حاصل ہونے والا رزق حلال ہی اس کے لیے باعث خیر و برکت ہے۔ اور برکت ایک ایسا عظیم الشان لفظ ہے جس کے اندر خیر کے مختلف پہلو پائے جاتے ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی ما یحب ویرید۔ 174 ۔ ایمانداری کا تقاضا رزق حلال پر اکتفا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان لوگوں سے فرمایا کہ اللہ کی دی ہوئی بچت تم لوگوں کے لیے بہتر ہے اگر تم ایماندار ہو کہ ایمانداری کا تقاضا یہی ہے کہ تم لوگ حرام سے بچ کر حلال پر اکتفاء کرو اور اسی میں تمہارے لئے دارین کی بھلائی ہے۔ سو ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ رزق حلال ہی پر اکتفاء کرو ورنہ ایمانداری کا دعوی محض زبانی کلامی جمع خرچ بن کر رہ جائے گا۔ اور محض زبانی کلامی ایمان کا کوئی فائدہ نہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ کیونکہ ایمانداری کے تقاضوں کے مطابق حاصل کیا ہوا نفع جو بقیہ اللہ (اللہ کی دی ہوئی بچت) کی حیثیت رکھتا ہے وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ مال سے کہیں بہتر اور بڑھ کر ہے اگرچہ وہ بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس میں دنیا اور آخرت دونوں کی خیر اور برکت ہوگی جبکہ اس کے مقابلے میں ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ مال دنیا میں خیر و برکت کے جوہر سے خالی و محروم ہوگا اور آخرت میں وہ دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کا موجب بنے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین۔ 175 ۔ احساس ذمہ داری کا درس : سو حضرت شعیب نے احساس ذمہ داری کے طور پر ان لوگوں سے فرمایا اور میں تم لوگوں پر کوئی نگران کار نہیں ہوں۔ کہ تم کو زبردستی منوا کر اور عمل کروا کر چھوڑوں۔ میرے ذمے تو تبلیغ حق ہے اور بس۔ اور وہ میں نے کردی۔ والحمد للہ۔ اس سے آگے منوا لینا اور راہ حق پر ڈال دینا نہ میری ذمہ داری ہے اور نہ ہی میرے بس میں ہے۔ یہ سب کچھ اللہ وحدہ لاشریک ہی کے ذمے اور اسی کے حوالے ہے۔ میں نے اصل حقیقت تمہارے سامنے واضح کردی اور حق اور حقیقت کو پوری طرح کھول کر اور نکھار کر بیان کردیا۔ آگے تمہاری مرضی تم جانو اور تمہارا کام۔ میں نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی۔ اب اگر تم لوگ مانو گے تو تمہارا بھلا ورنہ خود تمہارا اپنا ہی خسارہ و نقصان۔ سو تم نے اگر میرے اس پیغام حق و صداقت کو مانا تو اس میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی۔ میرا کام تو انذار اور تبشیر ہے اور بس۔ میں تم لوگوں پر کوئی نگران اور داروغہ نہیں ہوں کہ تمہارے ایمان نہ لانے کی پوچھ مجھ سے ہو۔ بہرکیف اس میں احساس ذمہ داری کا اہم اور عظیم الشان درس پایا جاتا ہے کہ انسان اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لے کہ میرا نفع و نقصان کس میں ہے اور اسی کے مطابق وہ اپنے اخذ و ترک کا فیصلہ کرے۔ اور اسی بنیاد پر حضرت نبی معصوم (علیہ الصلوۃ والسلام) نے یہ اہم اور بنیادی تعلیم دی " استفت قلبک " یعنی تم خود اپنے دل سے فتوی پوچھ لیا کرو اگرچہ لوگ کچھ کہیں۔ سو احساس ذمہ داری اور قلب و ضمیر کی بیداری اصل اساس ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید وھو الھادی الیٰ سواء السبیل۔
Top