Tafseer-e-Madani - Hud : 9
وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنٰهَا مِنْهُ١ۚ اِنَّهٗ لَیَئُوْسٌ كَفُوْرٌ
وَلَئِنْ : اور اگر اَذَقْنَا : ہم چکھا دیں الْاِنْسَانَ : انسان کو مِنَّا : اپنی طرف سے رَحْمَةً : کوئی رحمت ثُمَّ : پھر نَزَعْنٰهَا : ہم چھین لیں وہ مِنْهُ : اس سے اِنَّهٗ : بیشک وہ لَيَئُوْسٌ : البتہ مایوس كَفُوْرٌ : ناشکرا
9 اور انسان (کی تنگ ظرفی کا عالم یہ ہے کہ اس) کو اگر ہم چکھا دیں اپنی طرف سے کوئی رحمت، پھر ہم اس کو چھین لیں اس سے، تو یہ بالکل مایوس (و ناامید اور) سخت ناشکر ہوجاتا ہے،
26 ۔ تنگ ظرف اور تھڑ دلے انسان کا حال : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ایسے انسان کو ہم اپنی طرف سے کوئی زحمت چکھا دیں پھر ہم اس کو اس سے چھین لیں تو یہ بالکل مایوس اور ناشکرا ہوجاتا ہے۔ سو یہ اس تنگ ظرف اور تھڑ دلے انسان کا حال ہے کہ یہ صبر و شکر کی خصال عالیہ اور صفات حمیدہ سے عاری اور محروم ہوتا ہے کہ نعمت ملنے پر یہ اتراتا اور شیخی بگھارتا ہے۔ اور اس کے چھن جانے پر یہ مایوس اور ناشکرا بن جاتا ہے اور حضرت واہب مطلق۔ جل وعلا۔ کی دوسری ان تمام نعمتوں کو بھول جاتا ہے جن سے وہ اس سے پہلے مستفید و فیضیاب ہوتا رہتا ہے اور جن سے وہ اب بھی مستفید و فیضیاب ہورہا ہوتا ہے کہ اس کی نعمتیں تو بےحد و حساب ہیں۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ لیکن ایسا انسان اس کی ان تمام عنایات اور نوازشوں کو بھول کر شکایات کے گویا دفتر کھول دیتا ہے کہ مجھ سے یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا۔ یوں ہوگیا اور ووں ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ جو کہ اس کی تنگ ظرفی کی علامت اور اس کی محرومی کی نشانی ہوتی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top