Tafseer-e-Madani - Hud : 97
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَاتَّبَعُوْۤا اَمْرَ فِرْعَوْنَ١ۚ وَ مَاۤ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ
اِلٰي فِرْعَوْنَ : فرعون کی طرف وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَاتَّبَعُوْٓا : تو انہوں نے پیروی کی اَمْرَ فِرْعَوْنَ : فرعون کا حکم وَمَآ : اور نہ اَمْرُ فِرْعَوْنَ : فرعون کا حکم بِرَشِيْدٍ : درست
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، مگر ان لوگوں نے (اس کے باوجود) فرعون ہی کے حکم کی پیروی کی، حالانکہ فرعون کا حکم راستی کا نہ تھا،
193 ۔ بعثت موسوی فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے بھیجا موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف۔ سو بعثت تو آنجناب کی اگرچہ اس پوری قوم کی طرف تھی مگر ارباب بست و کشاد چونکہ ان لوگوں میں فرعون اور اس کے یہی سردار تھے اس لیے ذکر بطور خاص انہی کا فرمایا گیا ہے۔ (المراغی وغیرہ) سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اصل مدارو انحصا ارباب بست و کشاد ہی کی اصلاح پر ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح سے پورے ملک و قوم کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے بگاڑ سے سب بگاڑ۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اللہ پاک نے تو ان لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیات اور سلطان مبین یعنی کھلی سند کے ساتھ بھیجا لیکن ان بدبختوں نے اپنی مت ماری کی بناء پر پیروی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بجائے فرعون کے حکم ہی کی کی۔ جس سے بالآخر وہ دائمی ہلاکت و تباہی کے گہرے کھڈے میں گر کر رہے۔ اور یہی نتیجہ و انجام ہوتا ہے حضرات انبیاء و رسل کی دعوت حق و ہدایت سے منہ موڑنے اور ان کی تکذیب و انکار کا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 194 ۔ گمراہوں کی پیروی کا نتیجہ ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بعثت و تشریف آوری کے باوجود جو کہ ہماری نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ تھی ان لوگوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی۔ حالانکہ فرعون کا معاملہ راستی کا نہ تھا بلکہ ہلاکت و تباہی کا تھا۔ کہ وہ کفر و انکار کی راہ پر تھا جو کہ بغاوت و سرکشی کی راہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ یہاں سے مفہوم مخالف کے طور پر یہ بات نکلتی ہے کہ حاکم اگر رشد و ہدایت والا ہو اور وہ راہ حق و صواب کی راہنمائی کرتا ہو تو اس کی پیروی کرنا درست بلکہ مطلوب ہے۔ محض مخالفت برائے مخالفت جس طرح کہ آج کی نام نہاد جمہوریت میں ہوتا ہے، اسلامی تعلیمات کا تقاضا و مدعا نہیں۔ بلکہ اسلام کا اصول تو یہ ہے (وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ) کہ " نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو " خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ لیکن گناہ اور زیادتی کے کام میں کسی کا تعاون نہیں کرنا " سبحان اللہ۔ کیسا صاف ستھرا اور جامع اور پاکیزہ اصول و ضابطہ ہے جو اس کتاب حکیم نے دنیا کو عطا فرمایا ہے۔ اور پندرہ سو برس قبل کے اس دور میں عطا فرمایا جب کہ دنیا تہ بہ تہ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی اور آج بھی جو لوگ قرآن و سنت کے اس نور مبین سے منہ موڑے ہوئے ہیں وہ اسی طرح ڈوبے ہوئے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں نے فرعون کے حکم ہی کی پیروی کی حالانکہ اس کا حکم مان کر وہ تباہی کے گھاٹ پر اتر کر رہے اور ہمیشہ کے لیے فی النار والسقر ہوگئے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رکھے آمین ثم آمین۔
Top