Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 14
لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖ١ؕ وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ
لَهٗ : اس کو دَعْوَةُ : پکارنا الْحَقِّ : حق وَالَّذِيْنَ : اور جن کو يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ : وہ جواب نہیں دیتے لَهُمْ : ان کو بِشَيْءٍ : کچھ بھی اِلَّا : مگر كَبَاسِطِ : جیسے پھیلا دے كَفَّيْهِ : اپنی ہتھیلیاں اِلَى الْمَآءِ : پانی کی طرف لِيَبْلُغَ : تاکہ پہنچ جائے فَاهُ : اس کے منہ تک وَمَا : اور نہیں هُوَ : وہ بِبَالِغِهٖ : اس تک پہنچنے والا وَمَا : اور نہیں دُعَآءُ : پکار الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) اِلَّا : سوائے فِيْ : میں ضَلٰلٍ : گمراہی
اسی کو پکارنا برحق ہے، اور جن ہستیوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں اس کے سوا وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آسکتیں، مگر جیسے کوئی اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلا دے کہ وہ خودبخود اس کے منہ میں آجائے، حالانکہ (اس طرح) وہ کبھی بھی اس کے منہ تک پہنچنے والا نہیں، اور کافروں کا پکارنا محض گمراہی میں (اور سراسر اکارت) ہے،3
42۔ اللہ ہی کو پکارنا برحق ہے : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا اور حصروقصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ معبود برحق بہرحال وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ سو ان سب دلائل وبراہین سے ثابت اور واضح ہوگیا کہ حاجت رواومشکل کشا وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے۔ نیز ہدایت وارشاد کی جس راہ کی طرف وہ اپنے بندوں کو بلاتاپکارتا ہے، وہی راہ راہ حق اور طریق صدق وصواب ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا (ان ھدی اللہ ھو الھدی) الفاظ کا عموم اگرچہ ان دونوں مفہوموں کو شامل ہے لیکن سیاق کلام کے لائق پہلا مفہوم ہی ہے کہ حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اسی کو پکارنا برحق ہے۔ وہی ہر کسی کو پکارکوسنتا اور اس کی حاجت کو پورا فرماتا ہے۔ اسی لئے اس دعوت حق کی تفسیر کلمہ توحید " لا الہ الا اللہ " سے کی گئی ہے۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل، صفوۃ التفاسیر، جامع البیان اور مدارک التنزیل وغیرہ ) ۔ سو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارنا حق۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ 43۔ معبودان من دون اللہ کی بےحقیقی کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جن ہستیوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں اللہ کے سوا وہ ان کے کچھ بھی کام نہیں آسکتیں کہ لکڑی، پتھر کے بت تو ہیں ہی جمادلایعقل، جن میں سننے سمجھنے کی سرے سے کوئی صلاحیت ہی نہیں، اس لیے ان کے کام آنے کا تو سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہ گئیں دوسری نیک ہستیاں اور اللہ تعالیٰ کے بزرگ بندے۔ تو وہ بھی محض اسباب کے دائرے کے اندر اور اپنی زندگی ہی میں سن اور سمجھ سکتے ہیں۔ اور کسی کے کچھ کام آسکتے ہیں۔ اسباب سے ماوراء اور دوردراز مسافت سے غائبانہ طور پر یا مرنے کے بعد سننا اور کسی کے کام آنا ان کے بس میں بھی نہیں ہے۔ کہ اسباب و وسائل کے ماوراء ایسا سننا اور قبول کرنا صرف خداوند قدوس ہی کی شان اور اسی کے ساتھ خاص ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو ان کو پکار کر اور ان کی پکار اور حاجت روائی ومشکل کشائی پر بھروسہ کرکے اللہ تعالیٰ سے منہ موڑنے اور غفلت برتنے والے سخت دھوکے اور کھلے خسارے میں ہیں۔ 44۔ رد شرک کے لیے ایک واضح اور عمدہ مثال : سو اس مثال سے واضح فرما دیا گیا کہ سو جس طرح پکارنے سے پانی پیاسے کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا اسی طرح غیر اللہ کی طرف سے اس کے پکارنے پر اس کی کوئی حاجت روائی کے لیے پکارے جانے والے غیر اللہ بھی اپنے پکارنے والے کی دعاء وپکار سے بیخبر ہیں جیسا کہ دوسرے مقام پر صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا (وہم عن دعائہم غفلون) یعنی وہ ان لوگوں کی دعاء وپکار سے بالکل غافل اور بیخبر ہیں (الاحقاف : 5) سو ان کو پتہ نہیں کہ کون ان کو پکاررہا ہے اور ان سے وہ کیا مطالبہ کررہا ہے کہ ان کے اندر بھی سننے سمجھنے کی کوئی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں۔ افسوس کہ اس طرح کی تصریحات کے باوجود کلمہ گو مشرک جگہ جگہ غیر اللہ کو پکارتا اور طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتا ہے۔ 45۔ کافروں کا پکارنا محض گمراہی اور سراسراکارت : کہ جن کو یہ لوگ پوجتے پکارتے ہیں ان میں کسی کی دعاء وپکار کو سننے اور قبول کرنے کی کوئی صلاحیت سرے سے ہے ہی نہیں۔ مگر کفر و شرک نے ان لوگوں کی مت ایسی مار کر رکھ دی ہے کہ ان کو یہ واضح حقیقت بھی سمجھ نہیں آرہی اور ان کو یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ایسی بےحقیقت چیزوں کو پکار کر یہ اپنے لیے کیسی بڑی ہلاکت اور تباہی کا سامان کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اور جس کی پکار برحق اور جس کو پکارنا برحق ہے (لہ دعوۃ الحق) اس کو پکارنے کی توفیق وسعادت سے تو ایسے بدبخت محروم ہیں تو پھر ان کی بےجا اور بےمحل پکار کا کوئی نتیجہ آخر کس طرح نکل سکتا ہے ؟ اور ان کی پکار کے صدا بصھرا ہونے میں کیا شک وشبہ ہوسکتا ہے ؟ سو ان کی حالت اس پیاسے ہی کی طرح ہے جو پیاس کی شدت اور اس کی بےقراری میں اپنے دونوں ہاتھ ایسے پانی کی طرف بڑھائے اور پھیلائے ہوئے ہو جو اس کی پہنچ سے باہر ہو۔ سو جس طرح وہ پیاس سے تڑپتا اور پانی سے محروم ہی رہتا ہے اسی طرح ان کافروں اور منکروں کی دعاء وپکار بھی محض اکارت اور بیکار ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top