Tafseer-e-Madani - Ar-Ra'd : 5
وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِیْ خَلْقٍ جَدِیْدٍ١ؕ۬ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ الْاَغْلٰلُ فِیْۤ اَعْنَاقِهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَعْجَبْ : تم تعجب کرو فَعَجَبٌ : تو عجب قَوْلُهُمْ : ان کا کہنا ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہوگئے ہم تُرٰبًا : مٹی ءَاِنَّا : کیا ہم یقیناً لَفِيْ خَلْقٍ : زندگی پائیں گے جَدِيْدٍ : نئی اُولٰٓئِكَ : وہی الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ہیں الْاَغْلٰلُ : طوق (جمع) فِيْٓ : میں اَعْنَاقِهِمْ : ان کی گردنیں وَاُولٰٓئِكَ : اور وہی ہیں اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے هُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
اور اگر آپ تعجب کریں تو (واقعی) تعجب کے قابل ہے ان لوگوں کا یہ کہنا کہ جب ہم مٹی ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا ہے (بےپایاں قدرت و رحمت والے اس) رب کے ساتھ، ان کی گردنوں میں طوق پڑے ہیں، اور یہ یار ہیں دوزخ کے، جہاں ان کو ہمیشہ رہنا ہوگا،1
17۔ کفار و منکرین کا حال قابل تعجب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر آپ ان لوگوں کے حال پر تعجب کریں تو واقعی ان کا حال قابل تعجب ہے۔ یعنی ان کا یہ کہنا تعجب کے لائق ہے کہ کیا جب ہم لوگ مر کرمٹی ہوجائیں گے تو واقعی ہمیں از سرنو پھر پیدا کیا جائے گا ؟ کیونکہ جو خدا وندقدوس ایسی ایسی قدرتوں اور عظمتوں کا مالک ہے۔ اور جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی اس تمام عجیب و غریب مخلوق کو خلعت وجود سے نوازا، اس کے لیے بھلا اس انسان ضعیف البنیان کو دوبارہ وجود بخش دینا اور اس کو نیست کے بعد ہست کردینا آخرکیوں اور کیا مشکل ہوسکتا ہے ؟ جبکہ آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کا پیدا کرنا انسان کے پیدا کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (لخلق السموات والارض اکبرمن خلق الناس ولکن اکثرالناس لایعلمون) (المومن : 57) نیزدوسرے مقام پر یہ ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا پیدا کرنا ؟ (أانتم اشد خلقا ام السمآء بناھا) (النازعات : 27) سو اس سب کے باوجود ان کافروں کا حال بڑا قابل تعجب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ " کیا ہم جب مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہمیں دوبارہ پیدا کیا جائے گا ؟ " مگر کفر وانکار اور عنادوہٹ دھرمی نے ان کی مت ایسی ماردی کہ ان کو یہ سیدھی سادی اور واضح حقیقت سمجھ نہیں آتی۔۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ من کل زیغ وضلال۔ 18۔ کافروں کی گردنوں میں طوق : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والوں کی گردنوں میں طوق پڑے ہیں۔ ایسے طوق جو اگرچہ ظاہر میں نظر نہیں آتے لیکن وہ ظاہری اور حسی طوقوں سے بھی کہیں بڑھ کر سخت ہیں۔ جن کی بناء پر یہ لوگ اپنے رب رحمن ورحیم کے ساتھ کفر کرتے ہیں جس کی بےپایاں قدرت، بےمثال ربوبیت اور لامحدود رحمت وحکمت کے آثار و شواہد یہ لوگ ہر لمحہ ہر جگہ اور ہر طرف دیکھتے ہیں۔ پس اس کے ساتھ کفر کر کے یہ پکے کافر، ناشکرے اور نمک حرام بن گئے۔ جس سے حق باب ان کے اندراثرہی نہیں کرپاتی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ان لوگوں کی گردنوں میں ان کے اپنے اختیار کردہ کفروانکار، کبروغرور، انانیت وخود پرستی، اندھی بہری تقلید وجمہود اور خود ساختہ عادات وتقالید کے ایسے بھاری بھر کم طوق پڑے ہوئے ہیں جو ان کو حق اور اہل حق کی طرف مڑنے اور حق بات کو سننے اور ماننے ہی نہیں دیتے۔ جس کے نتیجے میں آخرکار ان کو انہی کے ذریعے گھسیٹ کر دوزخ کی آتش سوزاں میں ڈالا جائے گا اور یہ ہمیشہ فی النار والسقر ہو کر رہ جائیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا۔ (اذ الاغلال فی اعناقہم والسلاسل یسحبون، فی الحمیم ثم فی النار یسجرون) (المومن : 71۔ 72) یعنی " جبکہ طوق ان کے گلوں میں پڑے ہوں گے اور بیڑیاں ان کے پاؤں میں، ان کو ان کے ذریعے گھسیٹا جائے گا کھولتے پانی میں۔ پھر ان کو جھونکا جائے گا دوزخ میں "۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top