Tafseer-e-Madani - Ibrahim : 19
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہ دیکھا اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَاْتِ : اور لائے بِخَلْقٍ : مخلوق جَدِيْدٍ : نئی
تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے (کس طرح) پیدا فرمایا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس حکمت بھری کائنات) کو حق کے ساتھ وہ (قادرمطلق) اگر چاہے تو لے جائے تم سب لوگوں کو، اور لا بسائے (تمہاری جگہ) ایک نئی مخلوق کو،
36۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کا مطلب ؟ اور اہل بدعت کی ایک تحریف کی ترید : یعنی کیا تم غور نہیں کرتے، اور سبق نہیں لیتے، یعنی دیکھنے سے یہاں پر ظاہری آنکھوں سے دیکھنا مراد نہیں، بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہے جو کہ عبارت ہے غور و فکر سے، یعنی تم سوچو اور غور کرو کہ آسمان و زمین کی یہ حکمت بھری کائنات جس ذات اقدس واعلی نے پیدا فرمائی ہے، وہ کیسی عظمت والی ذات ہے، اور اس عظیم مخلوق میں جابجاپھیلے بکھرے ان عجائب وغرائب اور دلائل قدرت کو دیکھو، اور ان میں غور و فکر سے کام لو، جو کہ اپنے خالق ومالک کی عظمت اور وحدانیت کی گواہی دے رہے ہیں، کیا یہ سب کچھ عبث وبے کار ہوسکتا ہے ؟ نہیں اور ہرگز نہیں، تو پھر مخلوق سے اس کے خالق کی عظمت اور اس کے حق کو پہچانو اور صدق دل سے اس کے آگے جھک جاؤ اور جب آسمان و زمین کی اس حکمت بھری کائنات کی تخلیق و ایجاد، اور اس کے تصرف و تدبیر میں کوئی اس وحدہ لاشریک کا شریک وسہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک کیسے ہوسکتا ہے ؟ تو اس طرح آسمان و زمین کی یہ عظیم الشان کائنات اپنی زبان حال سے حضرت حق جل مجدہ کے وجود باجود کا بھی پتہ دیتی ہے اور اس کی عظمت شان، وحدانیت، مطلقہ، رحمت عامہ، اور عنایت شاملہ، کا بھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بعث بعد الموت پر بھی دلالت کرتی ہے، بہرکیف الم تر میں خطاب عام ہے اور ہر مخاطب کو دعوت فکر دی جارہی ہے خواہ براہ راست ہو، خواہ بالواسطہ، یعنی یہ کہ خطاب تو اگرچہ آنحضرت ﷺ سے ہے، لیکن اصل مقصود و مخاطب آپ کی امت کا ہر ایسا فرد ہے جو خطاب کے لائق ہو اور رؤیت (دیکھنے) سے مرادقلبی رؤیت ہے، یعنی سوچنا اور غور و فکر سے کام لینا، سو آیت کریمہ کا یہی مفہوم تمام ثقہ مفسرین کرام نے مرادلیا ہے، بطور نمونہ ملاحظہ ہو، طبری، قرطبی، ابوالسعود دروح، جامع محاسن، خازن ابن کثیر، فتح القدیر، اور تحریر وتنویرلابن عاشور، وغیرہ وغیرہ، پس اس سے اہل بدعت کے بعض تحریف پسندوں کا یہ نتیجہ نکالنا کہ حضور نے ہر چیزکو پیدا ہوتے دیکھا موصوف کی اپنی اختراع اور ایجادبندہ ہے، جو کہ سلف خلف کے جمہورمفسرین کرام میں سے کسی بھی ثقہ مفسر سے ثابت و منقول نہیں، اور مصوف نے اس کا ارتکاب اپنی طبعی افتاد کے مطابق اور اپنے شرکیہ عقائد کی آبیاری کے لیے کیا، واضح رہے کہ الم ترکایہ ارشاد ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا، اولم یر الذین کفروا ان السموات والارض کانتارتقا ففتقنھما (الایۃ) (الانبیاء۔ 30) نیزجیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اولم یرالذین کفروا ان اللہ خلق السموات والارض ولم یعی بخلقہن بقدر علی ان یحی الموتی (الایۃ) (الاحقاف : 33) وغیرہ میں ہے (ابن کثیر وغیرہ) سو جس طرح ان آیات کریمہ میں اہل بدعت کی یہ شرکیہ منطق نہیں چل سکتی، اسی طرح زیر بحث اس آیت کریمہ میں بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی، ان لوگوں کا اس طرح کہنا تحریف کے زمرے میں آتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top