Tafseer-e-Madani - Ibrahim : 40
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ۖۗ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ
رَبِّ : اے میرے رب اجْعَلْنِيْ : مجھے بنا تو مُقِيْمَ : قائم کرنے والا الصَّلٰوةِ : نماز وَ : اور مِنْ : سے۔ کو ذُرِّيَّتِيْ : میری اولاد رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَتَقَبَّلْ : اور قبول فرما دُعَآءِ : دعا
میرے پروردگار، مجھے بنا دے قائم رکھنے والا نماز کا، اور میری اولاد میں سے بھی (کچھ ایسے لوگ پیدا فرما جو یہ کام کریں) ہمارے پروردگار اور قبول فرما لے میری دعا کو
83۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء مغفرت وبخشش کا ذکر وبیان : سو اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء مغفرت وبخشش کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے اپنے لیے بھی اور اپنی اولاد کے لیے بھی، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے ہمارے رب بخشش فرمادے میری بھی اور میری اولاد کی بھی کہ یہ سب عقیدہ و ایمان کی دولت سے سرفراز ہو کر تیرے بن جائیں، کہ ایمان وعمل کی یہی پونجی وہ پونجی ہے جو انسان کے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کی کفیل وضامن ہے اللہم فشرفنا بہ وزدنا منہ بہرکیف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعاء سے ایک بات یہ واضح ہوجاتی ہے کہ پیغمبر نہ مختار کل ہوتا ہے نہ حاجت روا ومشکل کشا جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے بلکہ اس کا اصل کام دعا کرنا اور اپنے خالق ومالک کے حضور میں دست سوال دراز کرنا ہوتا ہے اور بس، آگے دعا کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں اور اسی کی مشیت ومرضی پر موقوف ہوتا ہے، وہ جس جس کی دعاء چاہئے اور جب چاہے قبول فرمالے اور جس کی چاہے نہ قبول کرے، جیسے بہت سے انبیاء کرام کی دعاؤں کو اس نے قبول نہیں فرمایا جس کی خود قرآن حکیم میں بہت سی مثالیں موجود ہیں اور دوسری بات حضرت ابراہیم کے عمل سے یہ ملتی ہے کہ انسان اپنی اولاد کے لیے بھی دعا مانگے اور تیسری بات یہ کہ انسان پہلے اپنے لیے دعا مانگے اور پھر دوسروں کے لیے کہ وہ محض خود بھی دعا کا بہرحال محتاج ہے۔
Top