Tafseer-e-Madani - Ibrahim : 52
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِهٖ وَ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّ لِیَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
هٰذَا بَلٰغٌ : یہ پہنچادینا (پیغام) لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَ : اور لِيُنْذَرُوْا : تاکہ وہ ڈرائے جائیں بِهٖ : اس سے وَلِيَعْلَمُوْٓا : اور تاکہ وہ جان لیں اَنَّمَا : اس کے سوا نہیں هُوَ : وہ اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : یکتا وَّلِيَذَّكَّرَ : اور تاکہ نصیحت پکڑیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
ایک عظیم الشان پیغام ہے سب لوگوں کے لئے (تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں) اور تاکہ اس کے ذریعہ ان کو خبردار کردیا جائے (ان کے مآل و انجام سے) اور تاکہ وہ یقین جان لیں کہ معبود برحق وہی ایک ہے۔3
102۔ قرآن حکیم کا اولین مقصد انذار : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کو خبردار کیا جائے، یعنی تاکہ ان کو خبردار کیا جائے ان کے مآل اور انجام سے، تاکہ اس طرح وہ اس کی روشنی میں اپنے انجام کی فکر کرسکیں، اور برے انجام سے بچ سکیں، اور حیات دنیا کی اس محدود و مختصر فرصت کو ضائع نہ ہونے دیں وباللہ التوفیق لما یحب ویرضی، سو اس کتاب حکیم کے ذریعے لوگوں کو ان کے مال وانجام سے خبردار کرنا قدرت وہ عظیم الشان احسان ہے جس جیسا دوسرا کوئی احسان ہوسکتا ہی نہیں، کہ اس علم وآگہی کے بغیر انسان اپنے مقصد حیات سے بیخبر طرح طرح کے اندھیروں میں محو ومستغرق اور خسارہ در خسارہ کا شکار رہتا ہے، اور وہ نرا حیوان بن کر رہ جاتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر گمراہ ہوجاتا ہے اور سب نیچوں سے نیچ (اسفل السافلین) بن کر رہ جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو قرآن حکیم اپنے نومبین کے ذریعے اس کو حق و ہدایت کی روشنی سے سرفراز و فیضیاب کرتا ہے اور اس کے دل ودماغ کو منور کرکے، اور اس کو حیوانیت محضہ کے قصر مذلت سے نکال کر ان عظمتوں اور رفعتوں سے ہم کنار و بہرہ ور کرتا ہے جن سے سرفرازی کے بعدیہ ساری خلائق کا مسجود ومطاع بن جاتا ہے، اور اس کو حق و ہدایت کی اس شاہراہ پر ڈال دیتا ہے جس پر چل کر یہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا اہل اور مستحق ہوجاتا ہے، اور اس کا وجود ہدایت اور خیرکاوجود بن جاتا ہے۔ 103۔ قرآن حکیم کی اساسی تعلیم توحید خدوندی : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ وہ یقین سے جان لیں کہ معبود برحق یک ہی ہے، یعنی صرف اللہ وحدہ لاشریک سو یہ ہے وہ اہم اور بنیادی نکتہ جس پر مدارو انحصار ہے سب معاملے کا یعنی اس انسان کے اندریہ ایمان و یقین راسخ ہوجائے کہ عبادت و بندگی اور اس کی ہر شکل صرف اور صرف ایک اللہ ہی کے لئے ہو اور بس کہ معبود برحق وہی اور صرف وہی وحدہ لاشریک ہے، سبحانہ وتعالیٰ ، پس توحید خداوندی اصل اور اساس ہے سارے دین حنیف کی اور اسی پر مدارو انحصار اس کی تمام ترتعلیمات مقدسہ کا، پس ہر قسم کی عبادت و بندگی اور اس کی ہر شکل وصورت اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ اس میں کسی بھی اور کو کسی بھی طور پر اور کسی بھی درجے میں شریک وسہیم ماننا شرک ہے جو کہ ظلم عظیم ہے اور یہ بغاوت اور ناقابل معافی جرم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 104۔ درس عبرت لینا عقل خالص کا تقاضا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تاکہ سبق حاصل کریں عقل خالص رکھنے والے اور وہ سبق لیں کہ ہم کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ اور کہاں جارہے ہیں ؟ ہمارا یہ آنا اور جانا کیوں ہے ؟ ہمارا مقصد وجود کیا ہے ؟ اور اس کو کس طرح پورا کیا جاسکتا ہے ؟ جس نے ہمیں پیدا کیا وہ کون ہے ؟ اور اس کا ہم پر کیا حق ہیــ ؟ اور جب ان تمام بنیادی سوالوں کا جواب قرآن حکیم کے سوا اور کہیں سے بھی نہیں مل سکتا، اور یقینا نہیں مل سکتا تو اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب حکیم قدرت کا کتنا بڑا عظیم احسان ہے، پس صدق دل سے اسی کی طرف راہنمائی حاصل کریں، یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، پس جو لوگ قرآنی ہدایت سے محروم ہیں، اور وہ اس سے منہ موڑتے اور اعراض برتتے ہیں وہ عقل مند نہیں ہیں، خواہ دنیاوی اعتبار سے وہ کتنے ہی عروج پر کیوں نہ ہوں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین وبھذا القدر نکتفی من تفسیر سورة ابراہیم، والحمد اللہ ربی العالمین الذی لاتتم الصالحات الا بتوفیق منہ جلاوعلا۔
Top