Tafseer-e-Madani - Ibrahim : 5
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ وَ ذَكِّرْهُمْ بِاَیّٰىمِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ
وَ : اور لَقَدْاَرْسَلْنَا : البتہ ہم نے بھیجا مُوْسٰى : موسیٰ بِاٰيٰتِنَآ : اپنی نشانیوں کے ساتھ اَنْ : کہ اَخْرِجْ : تو نکال قَوْمَكَ : اپنی قوم مِنَ الظُّلُمٰتِ : اندھیروں سے اِلَى النُّوْرِ : نور کی طرف وَذَكِّرْهُمْ : اور یاد دلا انہیں بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ : اللہ کے دن اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكَ : اس لَاٰيٰتٍ : البتہ نشانیاں لِّكُلِّ صَبَّارٍ : ہر صبر کرنیوالے کے لیے شَكُوْرٍ : شکر کرنے والے
اور بلاشبہ (اس سے پہلے) موسیٰ کو بھی ہم بھیج چکے ہیں (رسول بنا کر) اپنی آیتوں کے ساتھ، کہ نکال لاؤ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف، اور (یہ کہ) انھیں یاد دلاؤ اللہ کے (وہ عہد ساز) دن (جن میں بڑے عبرت انگیز واقعات رونما ہوئے) بیشک اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو ہمیشہ (زندگی بھر) صبر اور شکر ہی سے کام لینے والا ہو،
13۔ ایام اللہ کی تذکیر و یاددہانی کا حکم وارشاد : چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یاددہانی کراؤلوگوں کو اللہ کے (عہدساز) دنوں کی تاکہ اس سے یہ لوگ سبق سیکھیں اور عبرت پکڑیں۔ اور " تذکیربایام اللہ " کا یہ کام حسب ضرورت وموقع ہمیشہ کرنے کا ہے نہ کہ کسی خاص وقت اور خاص طریقہ کی تعیین کے ساتھ۔ کہ کسی خاص طریقہ اور دن کی تعیین جب شریعت کی طرف سے نہیں کی گئی تواز خود ایسا کرنا بدعت اور احداث فی الدین ہوگا جو کہ نصوص صریحہ کے مطابق باطل و مردود ہے۔ پس اہل بدعت کے تحریف پسندوں کا اس سے اپنے یہاں کی مروجہ بدعات کے لیے دلیل کشید کرنا ان کی تحریفانہ ذہنیت کی عکاس اور آئینہ دار ایک نرالی منطق ہے۔ جو خیرالقرون اور ان کے اتباع اور ثقہ اہل علم میں سے کسی کو بھی نہ سوجھی۔ نصوص قرآن وسنت اور فقہ اسلامی اور خاص کر فقہ حنفی میں جس کے ماننے کے ایسے لوگ خود بھی دعویدار ہیں اس میں ایسی بدعات کانہ کوئی ثبوت ہے نہ ذکر وتذکرہ۔ اس کے باوجود ان کو تفسیر کے نام سے قرآن حکیم کے حواشی پر ثبت کر دنیا کتنا بڑا ظلم اور کس قدر دیدہ دلیری اور سینہ زوری ہے۔ چناچہ ان کے یہ تحریف پسند لکھتے ہیں کہ جن دنوں کو اللہ کے پیاروں سے کوئی خاص نسبت ہو وہ اللہ کے دن بن جاتے ہیں۔ اور پھر اس سے آگے یہ صاحب خود بھی لکھتے ہیں کہ یہاں ایام اللہ سے مراد یا تو قوم عاد وثمود پر عذاب آنے کی تاریخیں ہیں یا بنی اسرائیل پر من وسلوی اترنے کی اور فرعون کے غرق ہونے کی۔ اب بدعت کے مارے ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ کیا عاد وثمود اور فرعون بھی اللہ کے پیارے تھے ؟ سو یہ ایک نمونہ ہے بدعت کی اس ظلمت و نحوست کا جس سے حق سے انحراف کرنے کے بعد اہل بدعت دو چار ہوتے ہیں۔ اور وہ ایسی ایسی لغویات ہانک دیتے ہیں۔ اور ان کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ یہ کیا لکھ رہے ہیں اور یہ کہاں سے بہک کر کہاں پہنچ رہے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top