Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 105
اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَفْتَرِي : بہتان باندھتا ہے الْكَذِبَ : جھوٹ الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : جو ایمان نہیں لاتے بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتوں پر وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ هُمُ : وہ الْكٰذِبُوْنَ : جھوٹے
(پیغمبر کبھی جھوٹ نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں، جو ایمان نہیں رکھتے اللہ کی آیتوں پر، اور ایسے لوگ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں،2
226۔ جھوٹ گھڑنا بےایمانوں کا کام۔ والعیاذ باللہ :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اور ” انما “ کے کلمہ حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ جھوٹ تو وہی لوگ گھڑتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے اللہ کی آیتوں پر کہ ان کو نہ خدا کا خوف ہے نہ آخرت کا ڈر۔ پس ایسے بےایمانوں کا اصل کام جھوٹ بولنا ہے۔ اور سچ اگر یہ لوگ بولیں گے بھی تو وہ عارضی اور وقتی فوائد کے اعتبار سے اور کسی دنیوی مفاد و مصلحت کے پیش نظر کہ ان کے نزدیک اصل چیز متاع دنیا اور اس کا حطام فانی وزائل ہی ہے۔ جس کو دوسرے مقام پر (یستحبوں الحیوۃ الدنیا علی الآخرۃ) کے ارشاد سے بیان فرمایا گیا ہے۔ سوابنائے دنیا کا حال کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ متاع دنیا ہی ان کا اصل مقصود اور کل کائنات ہے۔ یہاں تک کہ دانایان غرب اور دانشوران فرنگ کا تو صاف وصریح طور پر کہنا ہے دیانت داری ایک بہترین پالیسی ہے ( Honisty is the Best Policy) اور ظاہر ہے کہ انسانی پالیساں اپنے اپنے مفادات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں۔ آج کچھ کل کچھ۔ آج کا حلال کل کا حرام اور آج کا ناجائز کل کا جائز وغیرہ وغیرہ۔ سو جہاں اور جیسے فائدہ دیکھا ادھر ہی مڑ گئے اور اسی طرح ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دین حق کا کہنا اور بتانا یہ ہے کہ گناہ بذات خود برائی اور قابل نفرت چیز ہے۔ اسے ہر حال میں چھوڑنا ہے اور اس سے بچنا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (وذروا ظاہر الاثم وباطنہ) (الانعام : 121) اور چھوڑ دو تم گناہ کو خواہ وہ ظاہری ہو یا پوشیدہ “ مگر افسوس کہ جاہل مسلمان جو کہ اپنے دین مبین کی تعلیمات مقدسہ سے غافل وبے بہرہ ہے وہ اس سب کے باوجود اپنے دین متین کی تعلیمات مقدسہ کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر ان مادہ پرست دنیا داروں ہی پر اعتماد کرتا اور ان سے تعلق و دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اور اسی بناء پر آج مسلمان مختلف گرہوں، گروپوں اور بلاکوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اور طرح طرح سے ذلت وادبار کا شکار ہیں۔ جس کے آثار و مظاہر آج جگہ جگہ اور طرح طرح سے دیکھے اور سنے جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ الذی لا الہ غیرہ بہرکیف اوپر آیت نمبر 101 میں دشمنان حق کے پیغمبر اسلام کے بارے میں جو ان کا قول نقل فرمایا گیا تھا کہ یہ لوگ پیغمبر سے کہتے ہیں (انما انت مفتر) کہ ” تم تو محض ایک مفتری انسان ہو “۔ تو اس کے رد میں یہاں ارشاد فرمایا گیا کہ مفتری پیغمبر نہیں بلکہ وہ بدبخت لوگ ہیں جو ایمان نہیں رکھتے اللہ کی آیتوں پر۔ جو کہ ہدایت سے سرفرازی کا واحدذریعہ ہے۔ سو اللہ کی آیتوں کے انکار کے بعد ان لوگوں کے پاس جھوٹ اور افتراء پردازی کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے ؟ سوائے جھوٹ اور افتراء پردازی کے پلندوں کے ؟ اس کے بعد یہ لوگ اپنے خالق ومالک اور معبود حق کے بارے میں جھوٹ بولتے اور اس کے دین اور کتاب وغیرہ سب کے لئے جھوٹ ہی بولتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو اللہ کی آیتوں کے انکار کے بعد انسان ایسا اندھا اور اس قدر محروم اور بےبہرہ ہو کر رہ جاتا ہے کہ اس کے پاس جھوٹ، افتراء پردازی اور من گھڑت افسانوں، بےبنیاد مفروضوں اور فرضی و خیالی باتوں کے پلندوں کے سوا اور کچھ رہ ہی نہیں جاتا۔ سو ایمان سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top