Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
(اور یاد کرو، اے لوگو، اس ہولناک دن کو، کہ) جس دن ہر شخص اپنے ہی لئے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور ان پر (ذرہ برابر) کوئی ظلم نہ ہونے پائے گا،1
237۔ روز قیامت کی ہولناکی کی تذکیر و یاددہانی :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” جس دن کہ ہر شخص اپنے ہی لیے جھگڑتا ہوا آئے گا “ کہ اس روز ہر کسی کو اپنی ہی پڑی ہوگی۔ کوئی کسی کے کچھ کام نہیں آسکے گا کہ وہ بڑا ہی ہولناک دن ہوگا۔ ایسا ہولناک کہ کسی کو دوسروں کا، یہاں تک کہ اپنے کسی قریبی سے قریبی رشتہ دار کا بھی کوئی ہوش نہیں رہے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا (لکل امریء منہم یؤمئذ شان یغنیہ) (عبس : 37) اور یہ ہوشربا پریشانی ایسی اور اس حد تک ہوگی کہ انسان اپنے بہن بھائیوں اپنے ماں باپ اور اپنے بیوی بچوں تک سے دور بھاگے گا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں صاف اور صریح طور پر فرما دیا گیا (یوم یفرالمرء من اخیہ امہ وابیہ وصاحبتہ وبنیہ) (عبس : 34۔ 36) بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس روز مجرم شخص یہ چاہے گا کہ اس روز کے عذاب کے بدلے اس کے بیٹوں، اس کی بیوی، اس کی بھائیوں بہنوں اور اس کے خاندان کو جو اس کو پناہ دیا کرتا تھا اور روئے زمین کے تمام لوگوں کو اس کے بدلے میں لے لیا جائے اور اس کو چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ سورة معارج کی آیت نمبر 11 سے آیت 14 تک میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ سو اس سے اس دن کی شدت اور اس کی ہولناکی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ پس اس دن کو ہمیشہ یادرکھو اور یاد کراؤ تاکہ آج اس کے لئے تیاری کرسکیں۔ قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود ہاتھ سے نکل جائے اور ہمیشہ کیلئے پچھتانا اور افسوس کرنا پڑے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اس سے روز قیامت کی ہولناکی کی تذکیر و یاددہانی فرمائی گئی ہے تاکہ غافل انسان اپنی غفلت سے چونک کر اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں کو پیش نظر رکھے اور اس کے لئے تیاری کرے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ 238۔ انسان کو اپنے اعمال کا پورا بدلہ قیامت کے روز ہی مل سکے گا :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس روز ہر شخص کو اس کے کیے کرائے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ خیر کا بھی اور شرکا بھی۔ خیر کا جنت کی سدا بہار نعمتوں کی شکل میں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہی انجام خیر نصیب فرمائے۔ جبکہ برائی کا بدلہ دوزخ کے طرح طرح کے ہولناک عذابوں کی صورت میں ملے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔ سو انسان کو اس کی کمائی کا پورا بدلہ آخرت کے اس یوم جزا ہی مل سکے گا۔ ایک اس لیے کہ ” درالجزا “ وہی ہے جبکہ یہ دنیا ” دارالعمل “ ہے۔ اور دوسرے اس لیے کہ اس دنیا میں کسی کو اس کے کیے کرائے گا پورا بدلہ ملنا ممکن نہیں۔ جس کی وضاحت ہم کئی جگہ کرچکے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں کسی کو اس کے کیے کرائے کا پورا بدلہ تو اگرچہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے۔ اچھے اعمال کا اچھا اور برے کا برا۔ والعیاذ باللہ۔ لیکن اس کو اس کے اعمال کا بدلہ آخرت کے اس یوم جزاء ہی میں مل سکے گا جس کی وسعتیں لامحدود ہیں اور جو ہے ہی ” درالجزاء “ اور جہاں انسان کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ وبدلہ ملے گا۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویریدو علی مایحب ویرید۔ 239۔ قیامت کے روز پورا پورا عدل وانصاف ہوگا :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا “ نہ کسی کے ثواب میں کوئی کمی ہوگی اور نہ بلاوجہ کسی کے عذاب میں کوئی اضافہ ہوگا کہ وہ دن عدل وانصاف اور پورے، کامل اور حقیقی عدل وانصاف کا دن ہوگا۔ اور ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق پورا بدلہ دیا جائے۔ کسی کمی بیشی کا کوئی سوال نہیں ہوگا۔ پس اس دن کو ہمیشہ یاد رکھو۔ وباللہ التوفیق۔ سو قیامت کے روز پورا پورا عدل وانصاف ہوگا۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائیگی اور نہ کسی کے کھاتے میں کوئی ناکردہ گناہ ڈالا جائے گا۔
Top