Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 113
وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ جَآءَهُمْ : بیشک ان کے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْهُمْ : ان میں سے فَكَذَّبُوْهُ : سو انہوں نے اسے جھٹلایا فَاَخَذَهُمُ : تو انہیں آپکڑا الْعَذَابُ : عذاب وَهُمْ : اور وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اور بلاشبہ آچکے ان کے پاس ایک عظیم الشان رسول خود انہی میں سے، پھر انہوں نے (اس کو غنیمت جان کر ایمان لانے کی بجائے الٹا) ان کو جھٹلایا، تو آخرکار پکڑا ان کو اس عذاب نے (جس کے وہ مستحق ہوچکے تھے) ، درآنحالیکہ وہ کمربستہ تھے اپنے ظلم پر،
244۔ بعثت رسول کی نعمت عظمی اور اس کا تقاضا :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور بلاشبہ آچکے ان کے پاس ایک عظیم الشان رسول خود انہی میں سے “ ایسے عظیم الشان کہ ان کی عظمتوں جیسی عظمتیں خداوند قدوس کی ساری مخلوق میں اور کسی کو نہ کبھی ملی اور نہ قیامت تک کبھی ملنا ممکن ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ وعلیہ وعلی الہ وصحبہ وجمعین ومن اھتدی بھدیہ ودعا بدعوتہ الی یوم الدین۔ اور مزید کرم یہ کہ وہ رسول خود انہی میں سے ہیں۔ یعنی قریش مکی ہاشمی اور بشروانسان۔ تاکہ ان کو ان کی اپنی زبان میں اور ان کی ضروریات و طبائع کے مطابق پیغام حق سمجھا سکیں اور زندگی کے ہر دائرے میں ان کی صحیح راہنمائی کرسکیں۔ اس حقیقت کی تاکید و تشریح دوسرے مختلف مقامات کی طرح یہاں پر بھی (منہم) کے کلمہ کریمہ سے فرمائی گئی ہے۔ مگر اس کے باوجود بدعتی ملاں آپ کو بشر ماننے کیلئے تیار نہیں، بہرکیف رسول کی بعثت و تشریف آوری ایک عظیم الشان نعمت ہے جس سے حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے اس کے بندوں کو نوازا جاتا ہے۔ اور اس کا تقاضا ہے ان پر سچا پکا ایمان اور ان کی اطاعت و اتباع کہ یہی طریقہ ہے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا۔ وباللہ التوفیق۔ 245۔ انکاروتکذیب حق کا نتیجہ وانجام ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللہ :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ آخر کار آپکڑا عذاب نے ان لوگوں کو جو اڑے ہوئے تھے اپنے ظلم پر پیغام حق و ہدایت سے منہ موڑ کر۔ یہاں تک کہ انہوں نے جان بھی اسی حالت میں دے دی۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ظلم وانکار کا نتیجہ وانجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ ان پر یوں ہی بلاوجہ کردیا گیا ہو۔ بلکہ یہ خود ان کے اپنے اختیار کردہ اس ظلم کا منطقی انجام وطبعی نتیجہ تھا جو بالآخر ان لوگوں کو بھگتنا پڑا۔ سو اس سے دو اہم اور اصولی باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ حق کا انکار اور اس کی تکذیب ظلم ہے اور دوسری یہ کہ ظالموں کو ان کے ظلم کا انجام بہرحال بھگتنا ہوگا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے آمین۔
Top