Tafseer-e-Madani - An-Nahl : 114
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ اللّٰهُ : تمہیں دیا اللہ نے حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاشْكُرُوْا : اور شکر کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اِيَّاهُ : صرف اس کی تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت کرتے ہو
پس کھاؤ (پیو) تم لوگ ان چیزوں میں سے جو بخشی ہیں تم کو اللہ نے حلال، پاکیزہ، اور شکر (ادا) کرو تم اللہ کی نعمتوں کا، اگر واقعی تم لوگ اسی (وحدہ، لاشریک) کی بندگی کرتے ہو،
246۔ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے استفاد ہے کا حکم وارشاد :۔ سو ارشاد فرمایا گیا پس تم کھاؤ پیو ان چیزوں سے جو تم کو اللہ نے بخشی ہیں۔ اور محض اپنے کرم سے اور بلاشرکت غیرے بخشی ہیں۔ اس لیے شکر بھی تنہا اسی وحدہ لاشریک کا حق ہے۔ اور جب یہ سب بخشی ہوئی اسی وحدہ لاشریک کی ہیں تو ان میں سے کسی بھی چیز کو از خورد حرام قرار دینے کا حق بھی کسی کو نہیں ہوسکتا۔ بلکہ حلال وہی ہے جس کو وہ حلال بتائے اور حرام وہ ہے جس کو وہ حرام فرمائے۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اس سے اللہ پاک کی بخشی ہوئی نعمتوں سے استفادے کا حکم وارشاد فرمایا گیا ہے مگر دو شرطوں کے ساتھ۔ ایک یہ کہ وہ حلال ہو حرام نہ۔ پس ” میتہ “ ،” دم مسفوح “ وغیرہ جیسی کسی چیز سے استفادہ جائز نہیں کہ یہ حرام ہے۔ اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ چیز طیب اور پاکیزہ ہو۔ کوئی خبیث اور ناپاک چیزنہ ہو۔ جیسے سود جوا اور چوری وغیرہ جیسے کسی حرام ذریعے سے حاصل کی جانے والی کوئی چیز کہ ایسی ہر چیز خبیث اور ناپاک ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 247۔ شکر منعم کی تعلیم و تلقین :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور شکربجالاؤ تم لوگ اللہ کا اگر تم واقعی اسی کی بندگی کرتے ہو “ دل وجان سے۔ نیز ان نعمتوں کو اس کی تعلیمات و ہدایات کے مطابق استعمال کرکے کہ اس طرح اس وحدہ لاشریک کی عبادت و بندگی کے تقاضے بھی پورے ہوں گے اور ان نعمتوں میں اضافہ بھی ہوگا اور برکت بھی نصیب ہوگی کہ شکر منعم سے نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور برکت ملتی ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا۔ (لئن شکرتم لازیدنکم) (ابراہیم : 7) یعنی اگر تم لوگ شکر ادا کروگے تو یقینا میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔ سو شکر نعمت ایک عظیم الشان سعادت ہے۔ (رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علی وعلی والدی وان اعمل صالحا ترضاہ وادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین) سو اس ارشاد ربانی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ کہ اللہ پاک کی عبادت و بندگی کا تقاضایہ ہے کہ اس کی بخشی ہوئی نعمتوں پر اسی وحدہ لاشریک کا شکر ادا کیا جائے اور اس کی خلاف کرنا مقتضائے عبادت کیخلاف ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ مشرکین مکہ اپنے بتوں کے لئے نذریں مانتے اور چڑھاوے چڑھاتے اور طرح طرح کی شرکیات کا ارتکاب کرتے۔ جس طرح آج بھی بہت سے جاہل مسلمان کرتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود ان کا دعوی یہ تھا کہ ہم اللہ ہی کی بندگی کرتے ہیں۔ اور یہ بت اور آستانے وغیرہ ہمارے واسطے اور وسیلے ہیں اللہ تک پہنچنے کے لئے (مانعبدہم الا لیقربونا الی اللہ زلفی) (الزمر : 3) سو ایسے لوگوں کی ان فلسفہ طرازیوں کے جواب میں اور ان کے اس طرح کے مغالطوں کی تردید کے لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگ واقعی اللہ کی عبادت و بندگی کرتے ہو تو اس کی بخشی ہوئی نعمتوں پر اسی کا شکر ادا کرو۔ ان میں کسی اور کو اس کا شریک مت ٹھہراؤ۔
Top